کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 198
اور مخاطب اس سے وہ مفہوم سمجھے، جس کے ساتھ اس کا دل خوش ہوجائے۔ اور جب وہ اصلاح کی کوشش کرے، تو وہ فریقین میں سے ہر ایک کے لیے دوسرے فریق کی عمدہ بات نقل کرے اور توریہ کرے۔ اسی طرح جنگ میں اپنے دشمن سے کہے: [تمہارا قائد اعلیٰ مرگیا ہے] اور نیت ان کے زمانۂ ماضی کے امام کی کرے۔ یا وہ کہے: [کل ہمارے ہاں مدد پہنچ جائے گی]، اور نیت کھانے وغیرہ کی کرے۔ یہ صورتیں مباح تعریضات میں سے ہیں اور یہ سب جائز ہیں ۔
ان علماء نے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف علیہما السلام کے قصوں اور اسی طرح کی دیگر باتوں کو بھی تعریضات پر ہی محمول کیا ہے۔ واللّٰه تعالیٰ أعلم۔[1]
علامہ مہلب نے اس بارے میں شدید موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے: ’’ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں ، کہ وہ جھوٹ کے جواز کا اعتقاد رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ سے مطلقاً منع فرمایا ہے اور بتلایا ہے، کہ وہ ایمان کے منافی ہے۔ اس لیے اس میں سے کچھ بھی جائز سمجھنا درست نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کے لیے جس بات کی رخصت دی ہے، وہ یہ ہے، کہ فریقین کے درمیان خیر کی جس بات کا اس کو علم ہو، بیان کردے اور جو شر کی بات سنے، اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے، مشکل کام میں آسانی کے حصول ، اور دُور کے قریب کرنے کے لیے [کوشش کرنے کا] وعدہ کرے۔ یہ معنی نہیں ، کہ وہ کسی چیز کے بارے میں خلاف واقعہ خبردے، کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح آدمی کا بیوی سے وعدہ کرنا اور اس کو [کسی بات کی] امید دلانا جھوٹ میں سے نہیں ہے، کیونکہ جھوٹ کی حقیقت تو یہ ہے، کہ خلاف واقعہ بات کی خبردی جائے اور وعدہ تو پورا کیے جانے تک حقیقت نہیں بنتا۔ اور مستقبل میں اس کے پورے ہونے کی امید ہوتی ہے، اس لیے اس کو
[1] ملاحظہ ہو: شرح النووي ۱۶؍ ۱۵۸۔