کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 197
{بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ } [1]
[بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے۔]
اور {إِنِّيْ سَقِیْمٌ} [2]
[بلاشبہ میں بیمار ہوں ۔ ]
اور ’’ قَالَ:’’ أُخْتِيْ۔‘‘ [3]
[یقینا وہ میری ہمشیرہ ہے۔ ]
اور یوسف علیہ السلام کے منادی کرنے والے کے قول:
{أَیَّتُھَا الْعِیْرُ إِنَّکُمْ لَسٰرِقُوْنَ} [4]
[اے قافلہ والو! بلاشبہ تم چور ہو۔]
سے استدلال کیا ہے۔ ان کے نزدیک قابل مذمت جھوٹ وہ ہے ، جس میں ضررہو۔
بعض دوسرے علماء نے، جن میں امام طبری بھی شامل ہیں ، کہا ہے: ’’ کسی بھی چیز کے متعلق جھوٹ بولنا قطعی طور پر جائز نہیں ۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا ہے: اس بارے میں جھوٹ کے جواز کے سلسلہ جو کچھ وارد ہوا ہے، اس سے مراد توریہ اور تعریضات کا استعمال کرنا ہے، صریحاً جھوٹ بولنا مراد نہیں ، مثال کے طور پر وہ اپنی بیوی سے وعدہ کرتا ہے، کہ وہ اس کے ساتھ احسان کرے گا، اس کو فلاں چیز پہنائے گا، تو وہ دل میں [ساتھ ہی] نیت کرلے، کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا مقدر فرمایا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ وہ ذو معنی کلمات استعمال کرے
[1] سورۃ الأنبیاء؍ جزء من رقم الآیۃ ۶۳۔
[2] سورۃ الصافات؍ جزء من رقم الآیۃ ۸۹۔
[3] ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب شراء المملوک من الحربي وھبتہ وعتقہ، رقم الحدیث ۲۲۱۷، ۴؍ ۴۱۰۔ نیز دیکھیے: المرجع السابق، کتاب الطلاق، باب إذا قال لامرأتہ، وھو مُکْرَہٌ: ’’ ھذہ أختي ‘‘ فلا شيء علیہ، ۹؍۳۸۷۔
[4] سورۃ یوسف ۔ علیہ السلام۔ ؍ جزء من الآیۃ ۷۰۔