کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 185
بُرا انجام بیان فرما کر امت کو اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔
حضرت ائمہ احمد، ابو داود، ترمذی اور حاکم نے بہز بن حکیم سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا، کہ میرے باپ نے میرے لیے یہ حدیث میرے دادا رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ وَیْلٌ لِلَّذِيْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضحِکَ بِہِ الْقَوْمَ، فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَہُ، وَیْلٌ لَہُ۔‘‘ [1]
’’ اس شخص کے لئے [ویل] ہے، جو لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے بات کرتا ہے، تو اس میں جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ویل ہے، اس کے لیے ویل ہے۔ ‘‘
اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبردی ہے، کہ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے اپنی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے، اس کے لئے [ویل] ہے۔ اور [ویل] سے مراد بہت بڑی ہلاکت یا جہنم کی ایک گہری وادی ہے۔ [2] اللہ کریم
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۰۰۷۳، ۳۳؍ ۲۶۲؛وسنن أبي داود، کتاب الأدب، باب التشدید في الکذب، رقم الحدیث ۴۹۸۰، ۱۳؍ ۲۲۸؛ وجامع الترمذي، أبواب الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، رقم الحدیث ۲۴۱۷، ۶؍۴۹۷۔۴۹۸؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الإیمان، ۱؍۴۶۔ الفاظ حدیث جامع الترمذي کے ہیں۔ امام ترمذی اور شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۶؍۴۹۸؛ وصحیح سنن أبی داود ۳؍۹۴۲؛ وصحیح سنن الترمذي ۲؍۲۶۸؛ وغایۃ المرام في تخریج أحادیث الحلال والحرام ص ۲۱۶)۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۳؍۲۶۲)۔
[2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۸؍۵۸۰؛ نیز ملاحظہ ہو: النہایۃ في غریب الحدیث والأثر، مادۃ ’’الویل ‘‘ ، ۵؍۲۳۶؛ والمفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’ ویل ‘‘، ص ۵۳۵ ؛ وفیض القدیر للمناوي ۶؍۳۶۷۔