کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 184
اس شخص نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وَھَلْ تَلِدُ الْاِبِلَ إلاّ النُّوْقُ؟۔‘‘[1] ’’اور کیا اونٹوں کو اونٹنیوں کے سوا اور کوئی جنم دیتا ہے؟‘‘ شیخ عظیم آبادی تحریر کرتے ہیں :’’ اس حدیث اور اس باب [2] کی دیگر احادیث میں مزاح کا جواز [ثابت ہوتا] ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مزاح فرمایا کرتے تھے اور [دورانِ مزاح] حق کے سوا کوئی اور بات نہ بولتے تھے۔‘‘[3] خلاصۂ کلام یہ ہے، کہ سچی بات کے ساتھ مزاح جائز ہے، البتہ وہ مزاح حرام ہے ، جس میں جھوٹ موجود ہو۔ اللہ کریم ہم سب کو جھوٹے مزاح سے محفوظ رکھیں ۔ آمین یا ذا الجلال والإکرام۔ (۱۱) لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا جھوٹ کی صورتوں میں سے ایک یہ ہے، کہ کوئی شخص دوسروں کو ہنسانے کی غرض سے اپنی بات میں جھوٹ کی آمیزش کرے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا
[1] سنن أبی داود ، کتاب الأدب، باب ما جاء فی المزاح ، رقم الحدیث ۴۹۹۸، ۱۳؍۲۳۳؛ وصحیح سنن الترمذي، أبواب البر والصلۃ ، باب ما جاء في المزاح، رقم الحدیث ۱۶۲۳۔ ۲۰۷۷، ۲؍۱۹۲؛ ومختصر الشمائل المحمدیہ، باب ما جاء في صفۃ مزاح رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، رقم الحدیث ۲۰۳، ص۱۲۶۔۱۲۷۔ امام بغوی اور شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: شرح السنۃ ۱۳۶؍۱۸۳؛ وصحیح سنن أبي داود ۳؍۹۴۲؛ وصحیح سنن الترمذي ۲؍۱۹۲؛ و مختصر الشمائل المحمدیہ ص ۱۲۶)۔ [2] ان کا اشارہ سنن ابی داود میں موجود باب بعنوان [باب ماجاء في المزاح]، [مزاح کے متعلق وارد نصوص کا باب] کی طرف ہے۔ [3] عون المعبود ۱۳؍ ۲۳۴۔