کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 181
وَیَتْرُکَ الْمَرَائَ وَإِنْ کَانَ صَادِقًا۔‘‘ [1] ’’بندہ تب تک مکمل ایمان والا نہیں ہوتا ، جب تک کہ وہ مزاحاً جھو ٹ نہ چھوڑ دے ، اور جب تک کہ و ہ جھگڑا نہ چھوڑ دے ، اگرچہ وہ سچا [ہی] ہو۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر بیان فرمایاہے، کہ دو باتوں کے بغیر [کتاب وسنت میں بیان کردہ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ]ایمان مکمل نہیں ہوتا اور ان دونوں میں سے ایک بات مزاحاً جھوٹ کا ترک کرنا ہے۔ ج: مزاحاً ترک جھوٹ پر وسط جنت میں گھر کی ضمانت: امام ابو داود نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِيْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ ، وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ، وَبِبَیْتٍ فِيْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ ، وَإِنْ کَانَ مَازِحًا، وَبِبَیْتٍ فِيْ أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلَقَہُ۔‘‘ [2] ’’میں جنت کے گردو پیش میں اس شخص کے لیے گھر کا ضامن ہوں ، جو جھگڑا چھوڑ دے ، اگرچہ وہ حق پر ہو ، اور اس شخص کے لیے جنت کے
[1] المسند، رقم الحدیث ۸۶۱۵،۱۶؍۲۵۹؛ (ط: القاھرۃ)۔ حافظ المنذری نے اس کے متعلق لکھا ہے:’’اس کو احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘ (الترغیب والترھیب ، کتاب الأدب وغیرہ ، الترغیب في الصدق والترھیب من الکذب ، رقم الحدیث ۱۹، ۳؍۵۹۴)۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترھیب ۳؍۱۲۶)۔ [2] سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب فی حسن الخلق ، رقم الحدیث ۴۷۹۰، ۱۳؍۱۰۸۔ حافظ منذری نے اس کے متعلق لکھا ہے: اس کو ابو داود ، ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے اسے [حسن]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الترغیب والترھیب، کتاب الادب وغیرہ، الترغیب في الخلق الحسن و فضلہ ، رقم الحدیث ۱۵، ۳؍۴۰۶)۔ شیخ البانی نے اسے [حسن]کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود:۳؍۹۱۱ ؛ و سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث ۲۷۳، ۱)