کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 177
[اگر تم نے اچھے کام کیے، تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے اور اگر تم نے برائیاں کیں ، تو اپنے ہی لیے۔]
اس بارے میں بہت سے دلائل اور بھی ہیں ۔ ‘‘[1]
۲: سچ کا دنیا و آخرت کی خیر کے اسباب میں سے ہونا:
علامہ ابن ابی جمرہ ہی لکھتے ہیں : اس میں یہ دلیل [بھی ]ہے، کہ آخرت ہی سے دنیا حاصل ہوتی ہے۔ وجہ استدلال یہ ہے ، کہ ان دونوں کے لیے برکت تو سچائی ہی سے حاصل ہوتی ہے اور وہ امورِ آخرت سے ہے، اس کے اپنانے والے کو ثواب ملتا ہے اور وہ ایمان کی سب سے کامل صفات میں سے ہے۔ محققین [ علماء] نے کہا ہے: ’’جس نے سچ بولا، اور تصدیق کی ، تو وہ ضرور[ اپنے مقصد کے] قریب ہوا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اسے بیان فرمایا:
’’ لَا یُنَالُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ إِلاَّ بَطَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ‘‘ [2]
بے شک جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، وہ ان کی طاعت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔[3]
[1] بہجۃ النفوس ۲؍۲۱۹۔ علامہ عینی نے تحریر کیا ہے، کہ ظاہری طور پر تو حدیث کا تقاضا یہی ہے، کہ حدیث پر عمل کرنے والا برکت حاصل کرے ، لیکن اس بات کا احتمال ہے، کہ ایک کی نحوست کا اثر دوسرے پر بھی ہو جائے۔ (ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۱۱؍۱۹۵)۔ حافظ ابن حجر نے دونوں احتمالات ذکر کیے ہیں ، اور یہ بھی تحریر کیا ہے، کہ علامہ ابن ابی جمرہ نے احتمالِ اوّل کو ترجیح دی ہے ، لیکن خود کسی کو ترجیح دینے کا ذکر نہیں کیا۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۴؍۳۲۹)۔
[2] اس حدیث کے لیے ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد، کتاب البیوع، باب الاقتصاد في طلب الرزق ۴؍۷۱؛ والترغیب والترھیب ، کتاب البیوع وغیرھا، الترغیب فی الاقتصاد في طلب الرزق والإجمال فیہ ، رقم الحدیث ۷، ۲؍۵۳۵۔ شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] قرار دیاہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترھیب، ۲؍۳۱۲)۔
[3] ملاحظہ ہو: بہجۃ النفوس ۲؍۲۲۰؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۴؍۳۲۹۔