کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 159
سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّ مِنْ أَکْبَرَ الْکَبَائِرِ الشِّرْکَ بِاللّٰہِ ، وَعُقُوْقَ الْوَالِدَیْنِ ، وَالْیَمِیْنَ الْغَمُوْسَ ، وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللّٰہِ یَمِیْنَ صَبْر، فَأدْخَلَ فِیْھَا مِثْلَ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ إِلاَّ جُعِلَتْ نُکْتَۃٌ فِيْ قَلْبِہِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔‘‘[1] ’’بلاشبہ بہت ہی بڑے گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ہے۔ کوئی بھی جھوٹی قسم کے ذریعے مچھر کے پر کے برابر کوئی چیز [اپنے مال میں ] شامل نہیں کرتا، مگر روزِ قیامت تک کے لیے اس کے دل میں نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث شریف کے حوالے سے درج ذیل تین باتوں کی طرف توجہ دلانا شاید مناسب ہو: ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بہت بڑے گناہوں کا ذکر کرنے کے بعد ، تیسرے کے بارے میں خصوصی وعید سنائی ۔ علامہ طیبی نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کا ذکر فرمایا ، اور پھر تیسرے کے بارے میں خصوصی طور پروعید سنائی ، تاکہ سامعین اس حقیقت سے آگاہ ہو
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۶۰۴۳،۲۵؍۴۳۵۔۴۳۶(ط: مؤسسۃ الرسالۃ)؛ وجامع الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ النساء ، رقم الحدیث ۳۲۱۰ ، ۸؍۲۹۶۔ ۲۹۷؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر والإباحۃ، ذکر البیان بأن الیمین الغموس الذي وصفناہ من الکبائر ، رقم الحدیث ۵۵۶۳،۱۲؍۳۷۴؛ والمستدرک علی الصحیحین ، کتاب الأیمان والنذور ۴؍۲۹۶۔الفاظ حدیث جامع الترمذی کے ہیں۔اور امام ترمذی نے کہا ہے، کہ یہ حدیث [حسن غریب]ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذی۸؍۲۹۷)؛امام حاکم نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۴؍۲۹۶؛ والتلخیص ۴؍۲۹۶)؛ حافظ ابن حجر نے اس کی [اسناد کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۰؍۴۱۱)؛ اور شیخ البانی نے اسے [الحسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۳؍۳۸)۔