کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 151
۳: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے[خبردار! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی]کے الفاظ اتنی مرتبہ دہرائے ، کہ راوی کہہ اُٹھا، کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہ ہوں گے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اہتمام کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن دقیق العید نے تحریر کیا ہے: ’’جھوٹی گواہی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام شاید اس لیے تھا ، کہ لوگوں کی نگاہوں میں اس گناہ کا ارتکاب معمولی بات ہے ، اس کے بارے میں لا اُبالی پن بھی زیادہ ہے ، اور اس کی خرابی کا واقع ہونا زیادہ سہل ہے ، کیونکہ شرک سے مسلمان نفرت کرتا ہے ،ا ور والدین کی نافرمانی سے انسانی طبیعت ابا کرتی ہے۔‘‘ [1]
حافظ ابن حجر فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس سے جھوٹی گو اہی کی سنگینی[ثابت ہوتی ] ہے، کیونکہ اس کی بنا پر کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ [2]
ب۔ عباد الرحمن کے اوصاف کے منافی:
جھوٹی گواہی کی خرابی کے دلائل و براہین میں سے ایک یہ ہے ، کہ یہ رحمن کے بندوں کے اوصاف کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَالَّذِینَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ} [3]
[اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔]
قاضی ابو سعود اس کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں :’’وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے، یا وہ جھوٹ کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے ، کیوں کہ باطل کا[انکار کیے بغیر] دیکھنا، اس میں شریک ہونا ہے۔‘‘ [4]
علاوہ ازیں امام بخاری نے اپنی کتاب [الصحیح] میں ایک باب کا عنوان ان الفاظ
[1] منقول از: فتح الباري ۱۰؍۴۱۱۔۴۱۲۔
[2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۰؍۴۱۲۔
[3] سورۃ الفرقان؍ جزء من الآیۃ ۷۲۔
[4] تفسیر أبي السعود ۶؍۲۳۰؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الکشاف ۳؍۱۰۱؛ وتفسیر القاسمي ۱۲؍ ۲۸۲۔