کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 124
’’بڑے جھوٹوں میں سے یہ ہے، کہ اپنی آنکھ کو وہ دکھائے، [1] جو اس نے دیکھا نہ ہو۔‘‘ ب۔ دائمی عذاب کا مستحق ہونا: امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مَنْ تَحَلَّمَ بِحُلْمٍ لَمْ یَرَہُ کُلِّفَ أَنْ یَعقِدَ بَیْنَ شَعِیْرَ تَیْنَ ، وَلَنْ یَفْعَلَ۔‘‘ [2] ’’جو شخص ایسا خواب دیکھنے کا دعویٰ کرے ، جو اس نے دیکھا نہ ہو ، تو اسے جَو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگاکر جوڑنے کا پابند کیا جائے گا اور وہ ہر گز [ایسا] نہ کر پائے گا۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جھوٹ بولنے والے کے لیے ابدی عذاب کے مستحق ہونے کی خبر دی ہے۔ علامہ ابن ابی جمرہ نے تحریر کیا ہے:’’اس کا معنی یہ ہے ، کہ جب تک وہ ان کے درمیان گرہ نہ لگائے گا، مبتلائے عذاب رہے گا۔ اور وہ ان کے درمیان گرہ تو کبھی بھی نہیں لگا سکے گا ، سو اس کا عذاب ابدی ہو گا۔‘‘ [3] تنبیہات: اس مقام پر قارئین کرام کی توجہ درج ذیل دو باتو ں کی طرف مبذول کروانا شاید
[1] یعنی ایسا خواب دیکھنے کا دعویٰ کرے ، جو اس نے نہ دیکھا ہو۔ [2] صحیح البخاري،کتاب التعبیر، باب من کذب في حلمہ ، جزء من رقم الحدیث ۷۰۴۲، ۱۲؍۴۲۷۔ [3] بہجۃ النفوس ۴؍۲۵۰۔ ایسے شخص کے عذاب کے دائمی ہونے سے مراد یہ ہے، کہ وہ ایسا عذاب پانے کا مستحق ہو گا، البتہ شرک کے علاوہ دیگر کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کی طرح اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہو گا۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔