کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 121
پھر انہوں نے فرمایا: ’’یا [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ] اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ ، یا اس کے قریب قریب یا اس سے ملتی جلتی بات فرمائی۔‘‘ [1]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ ساری صورتِ حال صرف اسی خوف کی بنا پر تھی ، کہ کہیں ان سے حدیث کے بیان کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی سنگین غلطی سرزد نہ ہو جائے۔
۳: امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان فرمایا:’’بلاشبہ مجھے آپ لوگو ں کے روبرو زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
’’جس شخص نے قصداً مجھ پر جھوٹ باندھا، تو اس کو چاہیے کہ وہ [دوزخ کی ] آگ میں اپنا گھر بنا لے۔‘‘
روک رہا ہے۔‘‘ [2]
[1] سنن ابن ماجہ ، المقدمۃ، التوقي في الحدیث عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، رقم الحدیث ۱۸،۱؍۸؛ وسنن الدارمي،باب من ھاب الفتیا مخافۃ السقط ، رقم الحدیث ۲۷۶،۱؍۷۲۔ الفاظ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ حافظ بوصیری نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے:’’یہ اسناد صحیح ہے ، بخاری اور مسلم کے ہاں اس کے تمام راویان قابل احتجاج ہیں۔ ‘‘ (مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ ۱؍۴۶)؛ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح ابن ماجہ ۱؍۱۰)؛ نیز ملاحظہ ہو: تخریج الدکتور بشار لسنن ابن ماجہ ۱؍۵۹؛ وإنجاز الحاجۃ للشیخ جانباز ۱؍۲۸۹۔۲۱۰۔
[2] صحیح البخاری،کتاب العلم ، باب إثم من کذب علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ،رقم الحدیث ۱۰۸،۱؍۲۰۱۔
تنبیہ:اس بارے میں مزید مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ ، المقدمۃ، باب التوقي في الحدیث عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ،۱؍۸۔۹؛ وسنن الدارمي، باب من ھاب الفتیا مخافۃ السقط ، ۱؍۷۱۔۷۵؛ والموضوعات للحافظ ابن الجوزي ۱؍۹۲۔۹۴؛ وتحذیر الخواص للعلامۃ السیوطي، الفصل الثالث في توقي الصحابۃ والتابعین کثرۃ الحدیث مخافۃ من النسیان والدخول فيحدیث الوعید ، ص۱۴۹۔۱۶۱۔