کتاب: جھوٹ کی سنگینی اور اس کی اقسام - صفحہ 117
ان پر جھوٹ ایسے کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، کہ کوئی چیز بھی اس کا توڑ نہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے معافی کی التجا کرتے ہیں ۔‘‘ [1] د۔جھوٹی حدیث روایت کرنے کا حکم: کسی حدیث کے موضوع ہونے کا علم ہونے یا اس کے موضوع ہونے کے متعلق ظن غالب کے بعد ، اس کا روایت کرناحرام ہے۔اس بات پر امام مسلم کی حضرت سمرہ بن جندب اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے۔ ان دونوں نے بیان کیا ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ مَنْ حَدَّثَ عَنِّيْ بِحَدِیْثٍ[2] یُرٰی[3] أَنَّہُ کَذِبٌ فَھُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ۔‘‘ [4] [جس نے مجھ سے کوئی ایسی حدیث روایت کی ، کہ وہ جانتا ہے[یا گمان کرتا ہے ]، کہ وہ جھوٹ ہے ، تو وہ جھوٹ بولنے[یا دو جھو ٹ بولنے] والوں میں سے ایک ہے۔] شرح حدیث میں علامہ قرطبی نے تحریر کیا ہے: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’فَھُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ‘‘ میں [باء]کے کسرہ کے ساتھ ہے یعنی صیغہ جمع ہے اور معنی یہ ہے ، کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے ، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
[1] إحیاء علوم الدین ۳؍۱۳۹۔ [2] (بحدیث): یعنی اگرایک حدیث ہی ہو۔ (ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۱؍۴۴۹)۔ [3] (یُری): [یاء] کے ضمہ کے ساتھ معنی گمان کرنے کا ، اور [یاء] کے زبر کے ساتھ معنی علم ہونے اور جاننے کا ہے، اور دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱؍۴۴۹)۔ [4] ملاحظہ ہو: صحیح مسلم ، المقدمہ ، باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین و التحذیر من الکذب علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ۱؍۹۔