کتاب: جشن میلاد یوم وفات پر ایک تحقیق ایک جائزہ - صفحہ 30
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی چاہیئے نہ کہ اپنی طرف سے ابتداع،نہ روزہ کی شکل میں اور نہ ہی لہوولعب کے انداز میں۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ تو قریش پہلے ہی رکھا کرتے تھے اور ممکن ہے کسی سابقہ شریعت سے انہوں نے اس کا حکم لیا ہو۔ جیسے حُرمت والے چار مہینوں کا احترام کرنا اور حج کرنا وغیرہ ہیں۔اور عہدِ جاہلیّت میں لوگوں کے روزہ رکھنے کا ثبوت صحیح بخاری( ۴/۲۴۴ مع الفتح) اور صحیح مسلم( ۷/۵ مع النووی) میں موجود ہے۔ اور جس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو روزہ رکھتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیسا روزہ ہے؟ اور انہوں نے نجاتِ موسیٰ کا واقعہ بتایا اور کہا ہم اسی کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں موسیٰ علیہ السّلام پر تم سے زیادہ حقدار ہوں۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم دیا۔ تو اس کے بار ے میں قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کیا خوب کہاہے کہ: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے( یہود سے سن کر)اس روزے کی ابتداء نہیں کی ‘‘بلکہ صحاح و سنن میں مذکورہ صحیح حدیثِ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ثابت ہے کہ: ’’عہدِ جاہلیّت میں بھی قریش روزہ رکھا کرتے تھے‘‘۔ اور امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہوسکتا ہے قریش دین ِابراہیم علیہ السلام کے کسی حکم پر روزہ رکھتے ہوں۔اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ رکھنا موافقتِ دین ِابراہیم علیہ السلام کے سبب ہو،جیسا کہ حج کا معاملہ ہے۔ اور پھر جب یہود کو روزہ رکھتے دیکھا تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم فرمایا ہو۔اوراس میں بھی کوئی امرِ مانع نہیں کہ فریقین ایک ہی دن کا روزہ دو الگ الگ اسباب کی بنا پر رکھتے ہوں۔ [1]
[1] تفصیل کے لئے دیکھئے:فتح الباری شرح صحیح بخاری،حافظ ابن حجر۴؍۲۴۸۔طبع دار الافتاء الریاض۔