کتاب: جشن میلاد یوم وفات پر ایک تحقیق ایک جائزہ - صفحہ 24
قائلینِ عید میلاد النّبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے دلائل اور اُن کا جَائزہ
ہم عید میلاد النّبی کی شرعی حیثیت کے بارے میں ذکر کر آئے ہیں کہ اس کا عہد ِرسالت و خلافت اور دورِ صحابہ و تابعین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ ساتویں صدی ہجری(۶۲۵ھ) میں سلطان صلاحُ الدین ایُّوبی کے بہنوئی، اور موصل کے قریبی شہراَربل کے گورنر ملک مظفّر ابو سعیدکوکبری نے اسے رواج دیا۔وہ محفلِ میلاد میں بھانڈ،مراثی،راگ ورنگ اور ناچنے والوں کو جمع کرتا، اور راگ سُنتا اور گانا باجاسُن کر خود بھی ناچاکرتا تھا۔ [1]
اور مُولف الابداع فی مضار الابتداع نے لکھا ہے:
عیسائیوں کے کرسمس کی دیکھا دیکھی میں مصری فاطمیوں نے جشنِ میلاد کو رواج دیا تھا۔ [2]
اور قرونِ اُولیٰ میں اس کا ثبوت نہ ہونے اور ساتویں صدی میں آکر شروع ہونے کی وجہ سے ہی اہلِ علم نے اسے ’’بدعت‘‘ قرار دیا ہے۔ [3]
[1] البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳؍۱۳۶تا۱۳۷ طبع المعارف بیروت۔الانصاف فیما قیل فی المولدمن الغلو والجحاف لا بی بکر جابر الجزائری،ص ۳۱۔۳۴ طبع جمعیۃ احیاء التراث،کویت۔
[2] بحوالہ کلمۃ الحق فی الاحتفال بمولد سید الخلق للشیخ عبداللّٰه آل محمود،ص ۵۰ طبع قطر۔
[3] دیکھئے مقالہ شیخ ابن باز،مجّلہ الجامعۃ الاسلامیۃ،مدینہ منوّرہ،ج۵؍ شمارہ ۴؍ مجریہ ۱۹۷۳ء ۔وفتاویٰ المنار،محمد رشید رضا،علامۂ مصر،ج ۵ ص ۲۱۱۱ فتویٰ نمبر ۷۶۵