کتاب: جشن میلاد یوم وفات پر ایک تحقیق ایک جائزہ - صفحہ 17
۴۔٭جب اﷲ اور رسُول کوئی فیصلہ کر دیں تو پھر کِسی کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی مرضی سے کوئی اور راہ اپنائے، بلکہ اُس فیصلے کو قبول کرناہی ہوگاچنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: {وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَاقَضَی اللّٰهُ وَرَسُوْلُہ‘ اَمْرًااَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُمِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَہ‘ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً} اورکسی مَرد یا عورت کے لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی بات کا حکم کر دیں تو پھر ان کو اس بات میں کوئی اختیار ہے اور جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان نہ مانے(اور دوُسروں کی رائے پر چلے) تو وہ کُھلا گمراہ ہوچکا۔ [1] اﷲ تعالیٰ کے عطافرموُدہ اصُول(اپنے تنازعات کو اﷲ اور اس کے رسُول کی طرف پھیردو) کے پیشِ نظر جب اس جشنِ میلاد جیسے اختلافی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیئے کتابِ الٰہی کو کھولیں۔اس کے تیس پاروں یا ایک سَو چَودہ سُورتوں کو اوّل تا آخر پڑھ جائیں۔آپ کو کوئی ایک بھی ایسی آیت نہیں ملے گی۔ جس سے مروّجہ جشن منانا ثابت ہو۔لہٰذا عدالتِ الہٰی کافیصلہ میلاد منانے والوں کے حق میں نہ ہوا،اور جس کام کا اﷲ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا،اسے سرانجام دے کر اجروثواب کی توقّع رکھنا کارِعبث ہے۔ اور جب ہم ارشادِ الٰہی کے مطابق دوسرے ثالث یا عدالتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخ کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ اور سیرتِ عطرہ کا مطالعہ یہ بات واضح کردیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود اپنی ولادت کے دن جشن منایا،اور نہ ہی اس بات کا کسی کو حُکم فرمایا ہے۔
[1] اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کِسی مجتہد کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہئے،بلکہ جو نہی کوئی آیت یا حدیث ملے، اُسے سر ّنکھوں پر رکھیں اور مجتہد کی رائے صد احترام کے باوجود ترک کردیں۔کیونکہ اسی میں ایمان کی سلامتی اور گمراہی سے بچاؤ ہے۔