کتاب: جرح وتعدیل - صفحہ 62
کہے ہیں، ان کے الفاظ ہیں:’’ ہو علی یدی عدل مثل القاسم بن ابی شیبۃ ‘‘[1] جبارہ بن مغلس اور قاسم بن محمد بن ابی شیبہ دونوں سخت ضعیف راوی ہیں۔یاد رہے علی یدی عدل کا ترجمہ وہ میرے نزدیک عادل ہے کرنا بالکل غلط ہے۔امام ابوحاتم عمر بن حفص ابو حفص العبدی کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ضعیف الحدیث لیس بقوی ہو علی یدی عدل ‘‘[2] غور فرمائیے اگر ہو علی یدی عدل کے معنی یہ ہیں کہ وہ میرے نزدیک عادل ہیں تو پھر اسے ضعیف الحدیث لیس بقوی کہنے کا کیا مقصد ہے۔حافظ ابن حجر اس اصطلاح کے بار ے میں فرماتے ہیں:’’ قولہ: علی یدی عدل، معناہ قرب من الھلاکۃ۔‘‘[3] ان کا یہ کہنا کہ وہ’’ علی یدی عدل ‘‘ہے اس کے معنی ہیں کہ وہ’’ ہلاک ‘‘ہونے کے قریب ہے۔اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض نے سمجھا ہے کہ یہ الفاظ توثیق میں سے ہیں مگر انہوں نے یہ صحیح نہیں سمجھا۔[4] امام ابن معین کی خاص اصطلاحات: لیس بشیء: یہ کلمات عموما جر ح پر، بلکہ شدید جرح پر دلالت کرتے ہیں۔ڈاکٹر احمد نور سیف نے اس اصطلاح کی جو تحقیق کی ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: اس کا اطلاق اس ضعیف راوی پر بھی ہوتا ہے جس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔ جو متروک الحدیث ہے اور اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔ بعض راویوں کی روایت ایک حالت میں مقبول ہوگی اور دوسری کیفیت میں مسترد ہو گی، اس کی حدیث لکھی جائے گی۔اس جرح کے ساتھ امام ابن معین ’’ضعیف ‘‘کی جرح بھی ذکر کرتے ہیں۔
[1] الجرح و التعدیل:۱-۵۵۰. [2] الجرح و التعدیل:۳-۱۰۳. [3] تہذیب التہذیب:۹-۱۴۲. [4] تہذیب التہذیب:۹-۱۴۲ نیز دیکھیے: شرح الفاظ التجریح النادرۃ او قلیلۃ الاستعمال (۱-۳۷۔۴۲)مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں (ص:۳۴۔۳۷).