کتاب: جرح وتعدیل - صفحہ 23
کرنے والے نے بات بیان کی اور وہ آدمی قابل اعتبار نہیں تھا اور تم خاموش رہے مجھے اس سوال سے ڈر لگتا ہے کہ اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟[1] موجودہ علماء پر جرح کرنا جائز نہیں: جرح نہ صحابہ کرام پر چلتی ہے اور نہ موجودہ علماء ہی پر۔صحابہ تمام ثقہ تھے۔موجودہ علماء پر جرح کرنا فضول کام ہے۔تمام احادیث کی سندیں کتب میں موجود ہیں، جو حدیث صحیح ہے وہ صحیح ہے موجودہ کسی کم علم اور جاہل مولوی کے بیان کرنے سے وہ ضعیف نہیں ہوگی اور جو روایت ضعیف ہے وہ کسی موجودہ ثقہ محدث کے بیان کرنے سے صحیح نہیں ہوگی۔جب اسناد کا سلسلہ جاری تھا اور تدوین حدیث کا دور تھا اس وقت رواۃ کی چھان پھٹک ایک مجبوری تھا،اس وقت جرح کی گئی اب اس کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے یہ بات برادرم عمرفاروق قدوسی صاحب نے بتا ئی کہ ایک دفعہ دوعلماء اکٹھے ہوئے تو ایک صاحب نے کہا کہ آپ میرے نزدیک ضعیف ہیں، دلیل یہ دی کہ تم غلط واقعات اپنی کتب میں لکھ جاتے ہیں۔تو دوسرے صاحب نے کہا کہ تم بھی میرے نزدیک ضعیف ہو، کیونکہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے حالات لکھ کر مجھے بھیجو گے لیکن آپ نے نہیں بھیجے،لہذا آپ بھی ضعیف ثابت ہوئے !!! تنبیہ: یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کہ انسان جوجی میں آئے لکھتا رہے، بلکہ کسی بھی فن میں لکھنے سے پہلے اپنے دور کے موجود ہ محدثین سے مشورہ کرے اگر وہ اس کام کی تحسین کریں پھراستخارہ کرے پھر لکھے۔یاد رہے کہ لکھنا بھی عمل ہے اس کا روز قیامت حساب ہو گا۔سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ اعتراض:بعض شیوخ طلبہ کو اجازۃ الروایۃ دیتے ہیں، یہ پھر کیوں دی جاتی ہے ؟ جواب:یہ باعث اعزاز دی جاتی ہے جس سے طلبہ کی نسبت محدثین کے ساتھ ملانا مقصود ہوتا ہے، اس اجازۃ الروایۃ کا حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں کچھ کردار نہیں ہو سکتا۔
[1] شرح العلل لابن رجب:۱-۴۶۶.