کتاب: جرح وتعدیل - صفحہ 15
تاریخ ہے جو ہم نے اپنے ایک مقالے ’’دفاع حدیث کیوں ضروری ہے ؟‘‘میں پیش کر دی ہے، اس پر مزید چند فوائد پیش خدمت ہیں۔ صرف صحیح بخاری کو ہی لیں جس دور میں بھی کسی نے اس پر بے بنیاد اعتراض کیے فورا صحیح بخاری کاد فاع کیا گیا، مثلا:
۱:امام دار قطنی نے اگر اعتراض کیے تو حافظ ابن حجر نے ہد ی الساری اور فتح الباری میں اور محدث مقبل بن ھادی الیمنی نے’’ الالزامات و التتبع ‘‘کے حاشیے میں خوب دفاع کیا۔
۲:حافظ ولی الدین ابوزرعہ نے رجالِ صحیح بخاری کے دفاع میں ’’البیان وا لتوضیح لمن اخرج لہ فی الصحیح وقد مس بضرب من التجریح ‘‘کے نام سے مستقل کتاب لکھی، جس میں ۳۵۰ رواۃ کا ذکر کیا۔
۳:علامہ محمد بن اسماعیل بن خلفون نے ’’رفع االتماری فی من تکلم فیہ من رجال البخاری‘‘کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔
۴:علامہ ابوالولید باجی نے ’’التعدیل والتجریح لمن خرج عنہ البخاری فی الصحیح‘‘کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی۔
۵:عبدالکریم پٹنی حنفی نے ’’الجرح علی البخاری ‘‘کے نام سے بدنام زمانہ کتاب لکھی تو اس کے رد میں شیخ الاسلام ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ نے ’’الکوثر الجاری فی جواب الجرح علی البخاری ‘‘لکھ کر بخاری کاد فاع کیا۔پٹنی نے سات رسالے لکھے تو محدث بنارسی نے بھی اس کے رد پر سات کتب لکھیں۔
۶:اگر حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’’مذہبی داستانیں‘‘کے نام سے صحیح بخاری پر اعتراضات کیے تو ہمارے استاد محترم محدث العصر ارشادا لحق اثری حفظہ اللہ نے ’’احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ‘‘لکھ کر دفاع کا حق ادا کیا۔
۷:مولانا سرفراز صفدر رحمہ اللہ نے کئی ایک کتب میں رواۃ حدیث پر بے جا کلام کیاتو شیخ اثری حفظہ اللہ نے’’ توضیح الکلام،مولانا سرفراز صفدر اپنی کتب کے آئینے میں اور آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے ‘‘ میں اس کی حقیقت کو آشکاراکیا۔ اعلاء السنن میں ضعیف اور کذاب رواۃ