کتاب: جرح وتعدیل - صفحہ 13
ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ﴾ (الحجرات:۶)
نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ۔[1]
محدثین نے ان پر عمل کرتے ہوئے سند کا سلسلہ قائم کیا ہے۔
ابراہیم نخعی تابعی کہتے ہیں کہ مختار ثقفی کے دور میں سند کے بارے میں تفتیش کا رجحان شروع ہوا۔اس لیے کہ ان دنوں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کثرت سے جھوٹ بولا جارہا تھا۔[2]
امام عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ الاسناد من الدین لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء۔ سند دین کا حصہ ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو جوچاہتاکہہ ڈالتا۔[3]
امام ابن سیرین نے کہا:ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم۔بے شک یہ علم دین کا حصہ ہے تو دیکھ لو تم کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔[4]
بے بنیاد روایات کی تعداد:
حافظ ابو یعلی خلیلی نے کہا ہے:ان (شیعہ)کی حضرت علی رضی اللہ عنہ اوراہل بیت کی فضیلت میں موضوع روایات کی تعداد تقریبا تین لاکھ ہے۔
حافظ ابن قیم اس تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ اس تعداد کو بعید از قیاس نہ سمجھیں،اس بارے میں ان کے پاس جتنی روایات ہیں، اگر آپ ان کی تتبع اور جستجو کریں تو معاملہ ایسے ہی پائیں گے۔[5]
[1] بخاری:۶۷.
[2] شرح علل الترمذی لابن رجب:۱-۳۶۱.
[3] مقدمہ صحیح مسلم:۱-۲۱.
[4] مقدمہ صحیح مسلم:۱-۱۱.
[5] المنار المنیف ص: ۱۱۶.