کتاب: جنتی اور جہنمی عورت - صفحہ 34
سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ() لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ() فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ() فَشٰرِبُوْنَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيْمِ() فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِيْمِ() هٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّيْنِ ﴾( الواقعہ 51۔56) ’’ پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو، تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو۔اسی سے تم پیٹ بھروگے اور اوپر کھولتا ہوا پانی پیاسے اونٹ کی طرح پیو گےیہ ہے قیامت کے دن ان لوگوں کی ضیافت کا سامان۔‘‘ عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾(آل عمران: 102) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لو أن قطرة من الزقوم، قطرت فی دار الدنیا لأفسدت علی أهل الدنیا معایشهم فکیف بمن یکون طعامه)) (جامع ترمذی:54؍10) ’’اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں پھینک دیا جائے تو وہ پوری دنیا کے معاملات کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ تو(اندازہ کرو کے) اس کے کھانے والے کی کیا حالت ہو گی۔‘‘ جہنمیوں کا کھانا: اِرشاد باری تعالیٰ ہے: