کتاب: جنتی اور جہنمی عورت - صفحہ 3
جہان ِ رنگ وبو کا نظام مرد وعورت کے باہمی اشتراک سے چل رہا ہے۔شریعت اسلامیہ نے دونوں کے لیے الگ الگ دائرہ کار متعین کر دیئے ہیں۔’حقوقِ نسواں‘ اور ’آزادی نسواں‘ کے پر فریق نعروں کے ذریعے ان دائروں میں اختلاط پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نتیجے کے طور پر اضطراب کی کیفیت طاری ہے۔مغرب اور یورپ میں خاندانی نظام کی تباہی اور اخلاقی گراوٹ سب کے سامنے ہے۔اب ہمارے ہاں بھی اس ناکام تجربے کو دہرانے کی کوشش جاری وساری ہے۔انسانیت کی فلاح اسلام کی آغوش میں آ جانے میں ہی پنہاں ہے۔جس نے دنیا میں بسنے والے ہر فرد کو اس کا دائرہ کار واضح طور پر بتا دیا ہے۔ اِرشاد باری ہے: ﴿قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا ﴾)الاسراء :84( ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھے راستے پر کون ہے۔‘‘ یہ کلمات لکھنے کا مقصد مسلمان خواتین میں سے ایک مخصوص طبقہ کو الگ کر کے بیان کرنا ہے۔ تمام عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہم اس قاعدے کو صحیح سمجھتے ہیں (کلنا ذوو خطاء) ''ہم میں سے ہر ایک صحیح بھی ہوسكتا ہے اور خطا کار بھی۔ اس قاعدے میں مرد و خواتین برابر کے شریک ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس طرح بعض کبیرہ گناہ مردوں کے ساتھ خاص ہیں اسی طرح بعض کبیرہ گناہ عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ہمارا مقصد خواتین کی تذلیل و توہین نہیں ہے۔ وہ تو ماں، بہن، خالہ، بیوی، بیٹی اور