کتاب: جنت و جہنم کے نظارے - صفحہ 247
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ هلْ تُضارُّونَ في القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ ؟ [1] قالوا: لا یارسول اللّٰہ، قال: فھل تُضَارُّونَ في الشَّمْسِ ليسَ دُونَهَا سَحَابٌ قالوا: لا يا رَسولَ اللّٰہِ، قال: فإنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذلكَ ‘‘[2]
[1] ’’ھل تضارون‘‘ دوسری روایت میں’’ تضامون‘‘ کا لفظ ہے، ’تضارون‘ را ء پر تشدید اور بغیر تشدید دونوں طرح وارد ہوا ہے، لیکن تاء پر دونوں صورتوں میں پیش ہی ہوگا، راء کو تشدید کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کیا تم (چودہویں رات کے) چاند کو دیکھنے میں بھیڑ‘ یا دیکھنے میں مخالفت یا اور کسی وجہ سے اس کے اوجھل رہنے کے سبب ایک دوسرے کو باہم ضرر پہنچاتے ہو جس طرح کہ پہلی شب کے چاند کے دیکھنے میں کرتے ہو؟ اور بغیر تشدید کے پڑھنے کی صورت میں اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ کیا تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ اور’’ تضامون‘‘ بھی میم پر تشدید اور بغیرتشدید دونوں طرح مروی ہے، البتہ جو میم کو تشدید کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ تاء کو زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جو بغیر تشدید کے پڑھتے ہیں وہ تاء کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں، میم کو تشدید کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کیا تم اسے دیکھنے کے لئے باہم ایک دوسرے سے چپکنے پر مجبور ہوتے ہو؟ اور بغیر تشدید کے پڑھنے کی صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کیا تمہیں اسے دیکھنے میں کوئی مشقت و پریشانی محسوس ہوتی ہے؟ صحیح مسلم بشرح نووی ۳/۲۱۔
[2] صحیح بخاری مع فتح الباری ۱۳/۴۱۹، حدیث (۷۴۳۷) وصحیح مسلم، ۱/۱۶۳، حدیث (۱۸۲)۔