کتاب: جنت و جہنم کے نظارے - صفحہ 24
’’خسرالتاجر‘‘ یعنی تاجر اپنی تجارت میں دیوالیہ کا شکار ہوا اور اس کا مال کم ہوگیا، نیز کہا جاتا ہے:’’خسر فلانٌ‘‘یعنی فلاں شخص ہلاک اور گمراہ ہوگیا، اور اس کا استعمال خارجی ضرورتوں (چیزوں ) میں ہوتا ہے،جیسے مال اور عزت و جاہ، اور زیادہ یہی استعمال ہے، نیز نفسی چیزوں میں بھی ہوتا ہے‘ جیسے صحت‘ سلامتی‘ عقل‘ ایمان اور ثواب وغیرہ، اور یہی وہ چیز ہے جسے اللہ عزوجل نے صریح خسارہ قرار دیا ہے،[1]چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾[2]
کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یا درکھو کھلم کھلا خسارہ یہی ہے۔
[1] دیکھئے: القاموس المحیط، ص۴۹۱ والمعجم الوسیط، ۱/۲۳۳و مفردات غریب القرآن للاصفہانی، ص۲۸۲ ومختار الصحاح، ص۷۴۔
[2] سورۃ الزمر: ۱۵۔