کتاب: جنت و جہنم کے نظارے - صفحہ 11
’’ إذا وُضِعَتِ الجِنازَةُ، فاحْتَمَلَها الرِّجالُ على أعْناقِهِمْ، فإنْ كانَتْ صالِحَةً قالَتْ: قَدِّمُونِي، قَدِّمُونِي، وإنْ كانَتْ غيرَ صالِحَةٍ قالَتْ: يا ويْلَها، أيْنَ يَذْهَبُونَ بها؟ يَسْمَعُ صَوْتَها كُلُّ شيءٍ إلّا الإنْسانَ، ولو سَمِعَها الإنْسانُ لَصَعِقَ۔‘‘[1]،[2] جب جنازہ تیار کرکے رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں ، تو اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے: مجھے آگے بڑھاؤ،مجھے آگے بڑھاؤ (جلدی لے چلو)، اوراگر نیک نہیں ہوتا ہے تو کہتا ہے: ہائے بربادی! اسے کہاں لے جارے ہو، اس کی آواز انسان کے علاوہ ہرچیز سنتی ہے، اور اگر انسان اسے سن لے تو بے ہوش ہوکر گرپڑے (یا مرجائے)۔
[1] ’’صعق‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ آواز کی ہولناکی کے سبب غشی کھا کر گر جائے، اور بسا اوقات ’’صعق‘‘ کا لفظ موت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، دیکھئے: فتح الباری، ۳/۱۸۵۔ [2] صحیح بخاری، حدیث نمبر:(۱۳۱۶، ۱۳۸۰) بروایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ۔