کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 99
ضرور کوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے۔لیکن اللہ کی رضا کے لئے گناہوں سے دُور رہنے والے کو کوئی مشکل آڑے نہیں آتی۔صرف چند ابتدائی آزمائشیں ہوں گی تاکہ معلوم ہو کہ توبہ کرنے والا سچا اور خلوصِ دل رکھتا ہے یا صرف ظاہراً توبہ کر رہا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ گناہوں کی جس قدر لذت زیادہ ہو گی اور اسباب گناہ جتنے زیادہ ہوں گے ان سے توبہ کرنے والے کو اسی قدر اجر و ثواب بھی زیادہ ملے گا۔ انسان فطرتاً خطا کا پتلا ہے۔اس لئے اگر دل کا جھکاؤ کبھی کبھار گناہوں کی طرف ہو جائے تو اسے فطرتی عمل سمجھنا چاہیئے۔اس لئے تقوی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔لیکن گناہوں میں لت پت ہونا اور اس سے نفرت نہ رکھنا قطعاً غلط ہے۔بلکہ ہمیشہ گناہوں سے جان چھڑانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔اور صمیم قلب سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے گناہوں کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑھ کر اور بہتر بدلہ عنایت کرتا ہے۔ ’’بدلہ‘‘مختلف انواع کا ہو سکتا ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کا حصول۔اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکونِ قلب و اطمینان کا حاصل ہونا۔دنیا و آخرت کی خیر و برکت اور اکرام و انعام الٰہی کا حصول۔زیر نظر سطور میں ہم مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھا رہے ہیں ۔ 1۔جو شخص لوگوں سے مانگنا،ان کے آگے دست سوال دراز کرنا،چھوڑ دے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قناعت،صبر اور عزت نفس کی دولت عطا فرمائیں گے۔اس کا دل غنی اور خوددار ہو گا۔فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ’’جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرمائے گا۔(یعنی اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا)۔اور جو شخص مانگنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا فرمائے گا۔‘‘(ابوداؤد:1644) 2۔جو شخص تقدیر پر شکوہ کرنا اور اعتراض کرنا ترک کرے گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے رضا و یقین کی نعمت عطا کرے گا۔اس کے انجام کو اچھا کرے گا اور جہاں سے اسے کوئی خیال بھی نہ ہو گا،وہاں سے نعمت الٰہی سے سرفراز فرمائے گا۔