کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 87
6۔ترجمہ:’’بے شک جنت تلواروں کے سائے تلے ہے‘‘(رواہ بخاری) 7۔ترجمہ:’’ایک دن رات کا پہرہ دینا پورے مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔اگر وہ مر گیا تو اس کا اجر و ثواب جاری رہے گا،اس کا رزق بھی(جنت میں ) جاری رہے گا اور وہ(قبر کے) فتنوں سے محفوظ بھی ہو گا۔‘‘(مسلم:1913) 8۔ترجمہ:’’جو شخص اللہ سے صدقِ دل سے شہادت کا طلبگار ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے مقامات تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ اپنے بستر پر کیوں نہ فوت ہو جائے‘‘(صحیح مسلم:1909) 9۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: ترجمہ:’’اے اللہ کے رسول!مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو جہاد کی برابری کرنے والا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کوئی عمل نہیں ہے۔‘‘وہ صحابی عرض کرنے لگا:یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وجہ یہ ہے کہ مجاہد کا گھوڑا بڑے بڑے طویل سفر کرتا ہے،اتنی ہی نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں ۔‘‘(بخاری:2785) 10۔ترجمہ:’’مجاہد کی مثال ایسے ہے کہ جس طرح کوئی روزے دار ہو،قیام اللیل کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون جہاد کرنے والا ہے۔اور مجاہد فی سبیل اﷲ کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیئے۔یا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت دے گا یا وہ اجر اور غنیمت کو لے کر واپس آئے گا۔‘‘(رواہ بخاری:2787) 11۔ترجمہ:’’جو بندہ فوت ہو جاتا ہے تو وہ کبھی دوبارہ دنیا میں نہیں آنا چاہتا اگرچہ اسے ساری دنیا و ما فیہا کی دولت بھی ملتی ہو۔سوائے شہید کے،اس کو شہادت کے وقت اس قدر انعام و اکرام ملے گا کہ وہ چاہے گا کاش میں دنیا میں دوبارہ جاتا اور دوبارہ شہید ہوتا‘‘(بخاری:2895) 12۔سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لایا اور اس نے لوہے کا لباس پہنا ہوا تھا،عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کروں یا اسلام قبول کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’پہلے اسلام قبول کرو پھر قتال کرو۔‘‘وہ مسلمان ہو گیا،لڑائی میں حصہ لیا،شہید ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عمل بہت کم کیا اور اجر بے پناہ دیا گیا۔‘‘(رواہ بخاری:2808)۔