کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 77
واپس لے کر نہ آئے‘‘(رواه بخاری«969)۔ 3۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان دس دنوں سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کو کوئی اور دن نہیں ہیں لہٰذا تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح،تحمید اور تہلیل کیا کرو۔‘‘(طبرانی الكبير)۔ 4۔سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ایام عشرہ میں سخت ترین محنت سے عمل صالح فرماتے تھے۔(بحوالہ دارمی)۔امام ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق اس عمل صالح کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان دنوں میں حج کا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور حج اسلام کے اراکین میں شامل ہے۔ مستحب اعمال 1۔کثرت سے نوافل ادا کرنا۔نمازوں میں مکمل پابندی کرنا،کثرت سجود سے قربِ الٰہی کا حاصل کرنا۔(رواه مسلم)۔ 2۔نفل روزے کا اہتمام کریں ۔کیونکہ اعمال صالحہ میں روزے شامل ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کی 9 تاریخ کو روزے رکھتے تھے یوم عاشور،محرم اور ہر مہینے تین روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔(ابوداؤد،مسند احمد)۔ 3۔کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا بھی ان ایام کا ایک معروف فعل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بازاروں میں جاتے تھے،خود بھی تکبیرات کہتے اور لوگ بھی تکبیریں بلند آواز سے پڑھتے تھے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیریں کہتے تو اہل مسجد اس کو سن کر جواباً تکبیریں کہتے تھے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نمازوں کے بعد،گھر میں ،آتے جاتے،پیدل چلتے ہوئے تکبیریں کہتے تھے۔افسوس صد افسوس کہ ان ایام میں یہ عظیم سنت ختم ہو گئی ہے۔تکبیر ان الفاظ سے کہی جاتی تھی: ﴿اَللّٰهُ اَکْبَر اَللّٰهُ اَکْبَراَللّٰهُ اَکْبَرکَبِیْرًا﴾اور﴿اَللّٰهُ اَکْبَراَللّٰهُ اَکْبَرلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ