کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 57
لئے ہے(ابو داود:1563) سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے سونے کا ایک زیور بنایا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا: ترجمہ:’’جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہوتا ‘یعنی اسکی پکڑ نہیں ہوتی۔سامان ِتجارت جو کاروبار کے لئے رکھا جائے اسکی سال کے آخر میں قیمت لگائی جائے گی اور اس قیمت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا۔سال کے آخر میں قیمت لگاتے وقت اس سامان کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی۔اگرچہ یہ قیمت سامان کے اصل ریٹ سے کم ہو یا زیادہ۔سیدنا سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کاروبار کے لئے تیار کردہ سامان کی قیمت لگا کرزکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا ہے(ابو داؤد:1562) اس سامانِ تجارت میں اراضی گھر اور مشینیں وغیرہ شامل ہیں جو تجارت کے لئے ہوں ۔وہ گھر جو بیچنے کے لئے نہ ہوں بلکہ کرائے پر دئیے جائیں تو ان گھروں یا دکانوں کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہوگی بلکہ اسکے کرائے پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ ہو گی۔اسی طرح ذاتی استعمال کی گاڑیوں اور ٹیکسیوں پر بھی زکوٰۃ نہیں ہوتی۔لیکن ان گاڑیوں کے مالک کے پاس اگر نصاب کے مطابق رقم جمع ہوجائے اور اس پرسال بھی گزر جائے تو پھر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔اگرچہ یہ رقم خرچ،شادی یا زمین خریدنے کے لئے رکھی ہوتی ہو۔اسی طرح یتیم یا مجنوں افراد کے پاس اتنا مال موجود ہو جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہو تو اسکے ولیوں کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ نکالیں ۔ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور مستحقین کا حق ہے لہٰذااسکو غیر مستحقین کو نہیں دینی چاہیے۔اس زکوٰۃ کے ذریعے انسان کو فائدہ حاصل کرنا یا ذاتی نقصان سے بچنے کے لئے استعمال کرنابھی درست نہیں ہے۔بلکہ صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضا او رخوشنودی کے لئے مستحقین کو زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اﷲتعالیٰ مصارفِ زکوٰۃ بیان فرماتے ہیں ۔فرمان الٰہی ہے(بے شک زکوٰۃ فقراء،مساکین،عاملین(زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے )تالیفِ قلبی کے لئے۔گردنوں کو آزاد کرنے