کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 56
پڑھی۔ ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ’’اﷲ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے بخیلی کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ یہ عمل انکے لئے بہتر ہے۔بلکہ یہ انکے لئے برا کام ہے۔قیامت کے دن انکی بخیلی انکے گلوں کا طوق بن جائے گی۔‘‘(بخاری:988،مسلم:1403)۔ زکوٰۃچار قسم کے اموال پر فرض ہے: (۱)۔ زمین سے حاصل شدہ اناج وپھل پر۔ (۲)۔ مویشی پر۔ (۳)۔سونے چاندی پر۔ (۴)۔اور سامانِ تجارت پر۔ یہ بھی واضح رہے کہ ان چاروں اقسام کا ایک مقرر شدہ نصاب ہے۔نصاب سے کم پر زکوٰۃ فر ض نہیں ہوتی۔لہٰذا پھلوں اور اناج کا نصاب 5وسق ہے جو(20من ) بنتا ہے۔گائے،اونٹ اور بکریاں کی تفصیل بھی احادیث نبوی میں موجود ہے۔اگر اختصار کو مدنظر نہ رکھا جاتا تو ہم یہاں تفصیل ذکر کردیتے۔ سونے کی زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے جو عربی ریال میں تقریباً 56ریال بنتاہے چاندی کی زکوٰۃ52تولہ پر فرض ہوتی ہے۔اس مال کو اگر ایک سال تک اپنی ملکیت میں رکھا جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔مال کا حاصل شدہ منافع بھی ملکیت میں شامل ہوتا ہے۔ سونے چاندی کے نصاب کے حکم میں موجودہ دور کی کرنسی بھی شامل ہے۔یعنی اگر روپے ریال یا ڈالر کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونے جتنی موجود ہے۔تو اس پر بھی زکوٰۃ ہے۔عورتوں کے زیورات پرزکوٰۃ ہوتی ہے۔اگرچہ یہ زیورات ذاتی استعمال کی چیزیں ہوں پھر بھی زکوٰۃ لازمی ہے۔کیونکہ حدیث ِنبوی موجود ہے کہ آپ نے ایک عورت کے ہاتھوں میں کنگن دیکھے تو فرمایا کیا تم اسکی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟اس عورت نے انکار کیا تو آپ نے فرمایاکیا تم پسند کرتی ہو کہ کل قیامت کے دن اﷲتعالیٰ اسکو جہنم کی آگ بنا دے۔یہ سن کر اس عو رت نے کنگن اتار دیئے او رکہا یہ مال اﷲ او ر اسکے رسول کے