کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 33
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکِ نماز کفر ہے۔لہٰذا نماز چھوڑنے والوں پر مرتدوں کے احکام نافذ کرنا چاہئیں ۔کسی بھی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ تارکِ صلوٰۃ مومن ہے۔یا وہ جنت میں جائے گا۔کچھ لوگ ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کفر سے مراد کفر نعمت ہے۔یا یہ چھوٹا کفر ہے۔لیکن جواباً عرض ہے: 1-نماز چھوڑنے والے سے شادی بیاہ نہیں کرنی چاہئے۔اگر نکاح ہو جائے اور وہ نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔فرمانِ الٰہی ہے: ﴿فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ﴾ ’’اگر تمہیں علم ہے کہ یہ عورتیں مومن ہیں تو پھر انہیں کافروں کی طرف مت لوٹاؤ۔یہ کافر ان عورتوں کے لئے اور یہ عورتیں ان کافروں کے لئے حلال نہیں ہیں ۔(الممتحنہ:101)۔ اگر کوئی شخص پہلے نماز پڑھتا ہو پھر وہ چھوڑ دے تو بھی اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ 3بے نمازی کو مکہ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔کیونکہ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا﴾(توبہ:28 اے ایمان والو!بے شک مشرک لوگ ناپاک ہیں ۔یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام میں داخل نہ ہوں ۔ 4۔بے نمازی کو میراث میں حق بھی نہیں ملنا چاہیے۔کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے: ﴿لاَ يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ﴾(متفق علیہ)۔ یعنی کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔