کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 32
﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ:’’اگر یہ لوگ توبہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ہم علم رکھنے والی قوم کے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں (التوبہ:11) اس آیت کا مفہومِ مخالف یہ نکلتا ہے کہ اگر وہ نماز قائم نہیں کرتے تو پھر ہمارے بھائی نہیں ہیں ۔واضح رہے کہ گناہوں کی وجہ سے دینی اخوت ختم نہیں ہوتی۔ظاہر ہے اسلام سے خروج ہی دینی اخوت کو ختم کرتا ہے۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ترجمہ:’’آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہے۔‘‘(صحیح مسلم:82) دوسری حدیث ہے: ترجمہ:’’ہمارے اور کافروں کے درمیان حد ِفاصل نماز ہے جو نماز کو چھوڑتا ہے وہ کافر ہے۔‘‘(ترمذی:2621) امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ترجمہ:’’جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے،اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘(مؤطا:79) یہاں پر قلیل و کثیر تمام حصوں کی نفی کی گئی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی بھی چیز کے ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے علاوہ نماز کے‘‘۔(ترمذی:2622) اگر ہم عقل سلیم کے اعتبار سے دیکھیں تو ذرا سوچئے۔میں نے ایسی دلیلوں پر بہت غور و فکر کیا ہے جو نماز نہ پڑھنے والوں کو کافر قرار نہیں دیتیں لیکن مجھے انہوں نے متاثر نہیں کیا۔ان دلیلوں میں سے چار حالتیں ضرور پائی جاتی ہیں :(1)۔یا تو یہ دلیل حقیقتاً دلیل بننے کے لائق نہیں ہے۔(2)۔یا اس دلیل میں کسی ایسی صفت کی قید لگائی گئی ہے جو نماز پڑھنے میں رکاوٹ ہو۔(3)۔یا پھر اس دلیل میں کسی عذر کا تذکرہ ہے جو ترکِ صلوٰۃ کا سبب بنا۔(4)۔یا پھر یہ دلائل عام ہیں ۔لہٰذا یہ کفر والی احادیث نے اس عام حکم کو خاص کر دیا ہے۔