کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 178
ہے۔وہ حالات درج ہیں ۔ (1)حیض و نفاس: حیض اور ولادت کے بعد(نفاس )والے ایام میں روزہ رکھنا منع ہے اسکے بعد قضاء دینا فرض ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔’’ہمیں روزہ کی قضا دینے کاحکم تھا لیکن نماز کی قضا کاحکم نہیں تھا۔(بخاری و مسلم )۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :’’حیض کے ایام میں خون نکلتا رہتا ہے ان حالات میں روزہ رکھنا بدن کو کمزور کرنے کاسبب بن سکتا ہے اسی باعث ایام حیض میں روزہ منع ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی 25؍251)۔ (2)حمل و رضاعت: ایام حمل اور دودھ پلانے کے دنوں میں بھی روزہ کوچھوڑنے کی رخصت ہے۔پھر ماں دیکھے کہ اب بعد میں روزہ رکھنے سے بچے کو نقصان ہوسکتا ہے اور ماں بھی کمزور ہے تو علماء کہتے ہیں کہ وہ ان روزوں کافدیہ(ایک مسکین کاکھانا)دے دے۔اگر ماں اور بچے کوضرر کا اندیشہ نہ ہوتو پھران روزوں کو قضاء کرکے پورا کریں ۔یہ قول حافظ ابن کثیر اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ دونوں کاہے۔(فتاویٰ 25؍318)۔ (3) بعض عورتوں کے ایام حیض کے علاوہ دنوں میں بیماری کی وجہ سے خون آتا رہتا ہے جس کو’’استحاضہ‘‘کہتے ہیں ۔ان ایام میں بھی روزہ رکھنا فرض ہے۔امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں ’’مستحاضہ عورت روزہ کو چھوڑ نہیں سکتی۔کیونکہ اسکا کوئی وقت مقررہ نہیں ہوتا۔اور یہ روزے کے منافی بھی نہیں ہے‘‘۔(25؍2) (4) حاملہ اور حائضہ عورت قضاء روزوں کو جلد از جلد ادا کریں ۔اگلے سال کا انتظار نہ کریں ۔شوہر کی موجودگی میں اسکی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے جائیں ۔البتہ رمضان کے روزوں کے لئے کسی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ (5)رمضان کے دوران حیض ختم ہونے پر مذکورہ عورت اگلے دن سے روزہ رکھنا شروع کردے چھوٹے ہوئے روزوں کو بعد میں قضاء کرلے۔اور دوران روزہ حیض شروع ہونے پر روزہ افطار کرسکتی ہے۔یہ روزہ شمار نہیں ہوگا۔