کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 153
ڈرنا ہے پھر درجہ بدرجہ تمام گناہوں اور برائیوں سے ڈرناہے۔پھر مشابہ امور اور پھر لایعنی کاموں سے پرہیز کرنا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’اتقوا اﷲ حق تقاتہ‘‘کامطلب ہے کہ اطاعت کے بعد پھر نافرمانی نہ ہو!ذکر کے بعد بھول نہ ہو،شکر کے بعد کفر نہ ہو۔کسی شخص کا تقویٰ تین باتوں سے معلوم ہوتا ہے۔(1)جو چیز نہ ملی(غم نہ کرنا) اس پر توکل کرنا۔(2)جو چیز ملی اس پر راضی رہنا۔(3)جو پریشانی اور غم ملا ہے اس پر صبر کرنا۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص اون کا جبہ پہنے ہوئے آیا اس کا نام فرقد تھا۔امام حسن نے اس جبے کادامن تھام کر کہا۔اے فرقد!تقویٰ اس اونی جبے میں نہیں ہے۔بلکہ تقویٰ تو دل کے ایمان اور عمل سے تصدیق کانام ہے۔(یعنی تقویٰ جبہ ودستار اور بڑی بڑی پگڑیوں عماموں میں نہیں ہوتا بلکہ ایمان باللہ،عمل صالح توکل،رضائے الٰہی پرراضی رہنے کانام ہے ) تقویٰ کاعلم سے تعلق: تقویٰ کی عمارت علم کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے جاہل شخص اچھا متقی نہیں بن سکتا۔کیونکہ اسے یہی علم نہ ہوگا کہ گناہ و ثواب کیا ہے۔سنت و بدعت کیاہے؟ امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ پہلے علم ہو کس چیز سے ڈرنا ہے پھر اس چیز سے ڈرا جائے اور پرہیز کیاجائے۔مثال کے طور پر اچھامتقی شخص سود نہیں کھاتا۔بدنظری نہیں کرتا بلکہ گناہوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں ۔بے گناہ کاخون نہیں بہاتا۔فتنوں میں پڑتا نہیں ہے۔اوریہ سب باتیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتی ہیں ۔ تقویٰ کے درجات! امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں !تقویٰ کے تین درجات ہیں (1 )دل اور اعضاء جسم کوگناہوں اور حرام کردہ اشیاء سے بچانا۔(2 )مکروہات اور ناپسندیدہ امور سے بچنا۔(3) فضول اور لایعنی کاموں ،باتوں سے اجتناب برتنا۔پہلے درجے سے انسان کو زندگی ملتی ہے۔دوسرے درجے سے اسکی صحت و قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور تیسرے درجے سے خوشی و فرحت اور مکمل سکون ملتا ہے۔ حصولِ تقویٰ کے ذرائع:آپ تقویٰ کی دواقسام کرسکتے ہیں ۔واجب اور مستحب۔ واجب تقویٰ:وہ تقویٰ جس کا حصول بالکل لازمی ہے وہ فرائض اسلام پر عمل کرنے