کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 14
مطلب ہے:اقرار کرنا اور دلی تصدیق کرنا۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾
ترجمہ:’’اور وہ صداقت کے ساتھ آیا اور(دین) کی تصدیق کی۔یہی لوگ حقیقی متقی ہیں ۔(الزمر:33)۔
اور دل کے عمل کا مطلب ہے:دل سے اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾
ترجمہ:’’اور تم رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور مطیع و فرمانبردار ہو جاؤ۔‘‘(الزمر:54)
زبان کے قول کا مطلب ہے تلاوتِ قرآن کرنا۔تمام اذکارِ مسنونہ،نماز اور حج ادا کرنا۔
ایمان میں اطاعت سے اضافہ اورنافرمانی سے کمی واقع ہوتی ہے:
ایمان میں زیادتی کی مثال یہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا﴾
ترجمہ:’’اور اہل ایمان کا ایمان مزید بڑھ جاتا ہے۔‘‘(المدثر:31)
اور اسی طرح یہ فرمان بھی ہے:
﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾
ترجمہ:’’اور جب قرآن کی آیات ان پر پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘(الانفال:2)
ایمان میں کمی کی مثال یہ ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان کپڑے کی طرح پرانا ہوتا رہتا ہے۔تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو تمہارے دلوں میں تازہ کرتا رہے۔‘‘(صحیح الجامع:1590)۔
ارکانِ ایمان:
اللہ تعالیٰ،فرشتوں ،کتابوں ،رسولوں ،قیامت،اچھی بری تقدیر کے برحق ہونے پر ایمان لانا،ضروری ہے۔(مسلم:8)