کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 137
علاوہ سوال میں ایسے امام کے متعلق پوچھا گیا ہے جو سگریٹ نوش ہو،تو جواباً عرض ہے کہ ایسے شخص کو مستقل امام نہ بنایا جائے۔کیونکہ امامت ایک عظیم ترین ذمہ داری ہے۔فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:’’قوم کی امامت وہ کرے جو سب سے زیادہ قرآن کا عالم ہو۔اگر سب لوگ قرآن میں برابر ہوں تو وہ امامت کرے جو سنت کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔اس کے بعد ہجرت اور قبولِ اسلام میں جو شخص زیادہ افضل ہو اس کو امامت دی جائے۔‘‘(سنن نسائی:780) علماء کا اختلاف ہے کہ کیا گناہ گار کو امام بنایا جائے یا نہیں ۔کچھ علماء اس کے جواز اور کچھ علماء اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔بہر کیف ایسے شخص کو مستقل امام نہیں بنانا چاہیئے۔علماء کا کہنا ہے کہ گناہ گار امام کے پیچھے نماز ادا ہو جاتی ہے۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے حکمرانوں کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے جو ظلم و ستم اور فسق و فجور میں پڑے رہتے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حجاج بن یوسف کے پیچھے بھی نمازیں پڑھیں ہیں حالانکہ وہ ظالم ترین انسان تھا۔یہ ایک مختصر سا جواب ہے جو ہم نے آپ کو بیان کر دیا ہے۔تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔(مجموع فتاوی لابن باز رحمہ ) جواب از طرف شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سگریٹ نوشی اور حقہ نوشی حرام ہے۔دلیل یہ فرمانِ الٰہی ہے کہ: ترجمہ:’’اے لوگو!تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے‘‘۔ علماء طب کا اتفاق ہے کہ تمباکو صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔اسی طرح سگریٹ اور حقہ نوشی مال کو ضائع کرنے اور فضول خرچی کے ضمرے میں بھی آتی ہے ان دونوں اُمور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔اسی طرح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ترجمہ:’’نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ اپنے آپ کو۔‘‘یہ حدیث اور اسی طرح کے دیگر فرامین بھی یہ بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی،حقہ نوشی اور دیگر منشیات سب حرام ہیں ۔‘‘