کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 104
مددگار رہتا ہے۔ 28۔جو شخص ناجائز عشق و محبت کو ترک کرتا ہے اور ایسے کام جو عشق و محبت کو پروان چڑھاتے ہیں اُن سے دُور رہتا ہے اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت نفس،سکونِ قلب عطا فرماتا ہے۔ذلت و رسوئی اور دل کی جلن سے سلامتی ملتی ہے۔اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھرپور رہتا ہے۔محبت الٰہی دل کی پراگندگی،میلے پن کو صاف کر دیتی ہے۔دل کو غنی،پرسکون کر دیتی ہے۔بے شک دلوں کو سکون و اطمینان،فرحت و سرور صرف اور صرف عبادتِ الٰہی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ 29۔جو شخص بداخلاقی،بدگوئی اور چہرے کا متکبرانہ پن چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو نرمی،اخلاق اور کشادہ دلی کی نعمت عطا فرماتا ہے۔ایسے شخص پر جان نچھاور کرنے والے بے شمار ہوتے ہیں اور دشمن بہت قلیل ہوتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے: ترجمہ:’’تمہارے بھائی کے لئے تمہاری مسکراہٹ بھی صدقہ ہے۔‘‘(جامع ترمذی:1956)۔ ابن عقیل کہتے ہیں کہ’’مسکراہٹ محبتوں کو پیدا کرتی ہے،مقبولیت کی بنیاد مسکراہٹ ہے۔مسکراہٹ کی ضد نفرت و خشونت ہے‘‘۔ خلاصہ کلام اگر ہم دریا کو کوزے میں بند کر کے یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کوئی بھی عمل ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بدلے میں بہتر بلکہ بہت بہترین عوض عنایت فرماتا ہے۔‘‘فرمانِ الٰہی ہے: ترجمہ:’’جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ اسے(قیامت کو) دیکھے گا۔اسی طرح جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ بھی دیکھ لے گا۔‘‘(الزلزال:8)۔ ایک عظیم مثال اگر آپ جیتی جاگتی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب یوسف علیہ السلام کے قصے میں دیکھ سکتے