کتاب: جنت کا راستہ - صفحہ 102
بخاری)۔امام ماروردی فرماتے ہیں کہ’’ہر باشعور اور عقل مند آدمی کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیئے،وہ حلم و بردباری اختیار کرے،شدت پسندی،غصے کو اپنی عقل و فراست سے محدود کر کے رکھے تاکہ خیر و برکت اور سعادت و کامرانی اس کا مقدر بنے۔‘‘امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ایک دن کسی شخص پر شدید غضبناک ہوئے۔اس کو بطور سزا قید کرنے کا حکم دیا۔اور جب اسے کوڑوں کی سزا دی جانے لگی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:’’اس قیدی کو رہا کر دیا جائے۔میں نے جب اسے سزا سنائی تھی تو میں غصے میں آگیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت بھی یہی بیان کی ہے کہ مومن تو غصے کو پی جاتے ہیں ۔(آل عمران:134)۔ 20۔جو شخص عوام الناس کی عزتوں کے درپے نے ہو اور ان کے عیبوں ،لغزشوں کا پردہ چاک نہ کرے تو اس کے اپنے عیبوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔اور وہ لوگوں کے شر سے محفوظ رہے گا۔اس کی بصیرت و فراست میں اضافہ ہو گا۔سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص لوگوں کی ناپسندیدہ باتوں کی طرف جلدی لپکتا ہے تو لوگ بھی اس کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں ۔اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس نے کبھی کہی نہ سنی ہوں ۔ ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے:’’اے میرے بیٹے!اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی سے بچاؤ۔تم دوسروں کے عیبوں کو فاش کرو گے تو لوگ تمہیں بھی نشانہ بنا لیں گے۔اور تم جانتے ہو کہ جس مقام پر بہت سے تیر پے درپے مارے جائیں تو وہ مقام اپنی قوت و مضبوطی کے باوجود کمزور ہو جاتا ہے بلکہ ٹوٹ کر گر جاتا ہے‘‘۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’اگر کوئی شخص واقعتا مومن ہے تو وہ لوگوں کے عیبوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔جس طرح کوئی بیمار ہے تو وہ لوگوں کی بیماریوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں بلکہ اسے اپنی بیماری کی پڑی ہوتی ہے‘‘۔ 21۔جو شخص جاہلوں اور کم علم لوگوں سے مناظرے،بحث و مباحث کو ترک کرتا ہے تو اس کی اپنی عزت بھی محفوظ ہوتی ہے اور اس کا نفس بھی پرسکون ہوتا ہے۔اور تکلیف دہ باتوں کو سننے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ:(ترجمہ):’’معافی دینے کو اپنا شعار