کتاب: جنازے کے مسائل - صفحہ 8
فرمایا اور اپنے صحابی کو اس بات کا حکم دیا کہ قتل ہونا یا آگ میں جل جانا برداشت کرلینا ، لیکن شرک کے قریب بھی نہ جانا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی یا مدنی زندگی کے کسی بھی موقع پر شرک کے معاملے میں معمولی سے معمولی مداہنت بھی گوارا نہیں فرمائی۔ مکی زندگی میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم انتہائی کٹھن اور جان لیوا آزمائشوں سے گزر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حکومت کی قیادت سنبھالنے کی پیش کش کو یکسر ٹھکرادیا ، جو نظام شرک کی بنیاد پر قائم تھی اور جسے قریش مکہ شرک کی بنیاد پرہی قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے مقابلے میں ایک طویل اور صبر آزماجدو جہد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جو خالص نظام توحید پر قائم تھی ، جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طاقت اور قوت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سارے عالم عرب میں یہ مشن دے کر بھیجا کہ جاؤ کہیں بھی تصویر نظر آئے اسے مٹادو اور جہاں کہیں اونچی قبر دیکھو اسے زمین کے برابر کردو۔ (احمد، مسلم، ترمذی وغیرہ) مکی زندگی میں ہی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مصالحت کی غرض سے پیش کش کی گئی کہ ایک سال آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے معبودوں کی عبادت کر لیا کریں او رایک سال ہم آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے معبود کی عبادت کر لیا کریں گے ، تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ دو ٹوک اور واضح اعلان کروادیا : ﴿قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ، لاَ اَعْبُدُ مَاتَعْبُدُوْنَ ، وَ لاَ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ ، وَلاَ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ ، وَلاَ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ،﴾ ’’اے محمد ! کہہ دیجئے ایک الٰہ کی بندگی سے انکار کرنے والو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا ، جن کی عبادت تم کرتے ہو، نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ، تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔‘‘ 9۔ ہجری میں طائف سے بنو ثقیف کا وفد قبول اسلام کے لئے حاضر خدمت ہوا تو یہ شرط پیش کی کہ اگرتین سال تک ہماری امیدوں ، حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں کے مرکز’’لات‘‘ کو نہ توڑا جائے تو ہم اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط کسی قیمت پر قبول نہ فرمائی بلکہ وفد کے ایمان لانے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کے ساتھ ہی جناب سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرما دیا کہ جاؤ سب سے پہلے ان کا بت توڑ کر آؤ۔ ایمان کے ضعف اور عقیدے کے بگاڑ کی انتہا ملاحظہ ہو کہ طائف پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے بت توڑنے لگے تو