کتاب: جنازے کے مسائل - صفحہ 70
ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ مٹی کرید رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا اور فرمایا ’’عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اسے ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 174 تدفین کے بعد میت سے سوال جواب ہوتے ہیں۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰه عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم (( اِذَا اُقْبِرَ الْمَیِّتُ اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَقَانِ یُقَالُ لِاَحْدِہِمَا أَلْمُنْکَرُ وَ الْآخَرُ أَلنَّکِیْرُ ، فَیَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ہٰذِا الرَّجُلُ؟ فَیَقُوْلُ : مَا کَانَ یَقُوْلُ ہُوَ عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ اَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، فَیَقُوْلاَنِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ہٰذَا ، ثُمَّ یُفْسَحُ لَہٗ فِیْ قَبْرِہٖ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِیْ سَبْعِیْنَ ثُمَّ یُنَوِّرْ لَہٗ فِیْہِ ۔ ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ : نَمْ ، فَیَقُوْلُ : اَرْجِعُ اِلٰی أَہْلِیْ فَاُخْبِرُہُمْ؟ فَیَقُوْلاَنِ : نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ الَّذِیْ لاَ یُوْقِظُہٗ اِلاَّ اَحَبَّ اَہْلِہٖ اِلَیْہِ حَتّٰی یَبْعَثَہُ اللّٰہُ مِنْ مَضْجِعِہٖ ذٰلِکَ وَ اِنْ کَانَ مُنَافِقًا ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ ، فَقُلْتُ مِثْلَہٗ : لاَ اَدْرِیْ ، فَیَقُوْلاَنِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذٰلِکَ ، فَیُقَالُ لِلْاَرْضِ اِلْتَئِمِیْ عَلَیْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَیْہِ فَتَخْتَلِفُ اَضْلاَعُہٗ فَلاَ یَزَالُ فِیْہَا مُعَذَّبًا حَتّٰی یَبْعَثَہُ اللّٰہُ مِنْ مَضْجِعِہٖ ذٰلِکَ ۔)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ[1] (حسن) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب میت دفن کی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ کیری آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ دونوں اس سے پوچھتے ہیں ’’تم اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘ وہ وہی کہے گا جو (دنیا میں) کہا کرتا تھا (یعنی) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ‘‘ دونوں فرشتے جواب میں کہتے ہیں ’’ہم سمجھتے تھے کہ تم یہی جواب دو گے۔‘‘ پھر اس کی قبر ستر در ستر ہاتھ فراخ کر دی جاتی ہے اور اسے روشن کر دیا جاتا ہے۔پھر بندے سے کہا جاتا ہے ’’سوجاؤ۔‘‘ وہ کہتا ہے ’’میں اپنے اہل و عیال میں واپس جا کر انہیں (اپنی مغفرت کی) خبر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ فرشتے جواب میں کہتے ہیں ’’(یہ ممکن نہیں ، بلکہ اب تم) دُلہن کی نیند جیسی (پرسکون) نیند سوجاؤ جسے اس کے محبوب کے علاوہ کوئی نہیں جگاتا (چنانچہ وہ سوجاتا ہے)‘‘ یہاں تک کہ اللہ ہی اسے قبر سے اٹھائے گا ۔ اگر مرنے والا منافق ہو تو وہ فرشتوں کے سوال کے جواب میں کہتا ہے ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مَیں بھی وہی کچھ کہتا ہوں جو لوگوں کو کہتے سنتا تھا (اس کے علاوہ) میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ دونوں فرشتے کہتے ہیں ’’ہمیں معلوم تھا تم یہی جواب دو گے۔‘‘ پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تنگ ہوجا۔‘‘ چنانچہ وہ تنگ ہوجاتی ہے اورا س کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی
[1] صحیح سنن الترمذی، للالبانی، الجزء الاول ، رقم الحدیث 856