کتاب: جنازے کے مسائل - صفحہ 4
کتاب: جنازے کے مسائل مصنف: محمد اقبال کیلانی پبلیشر: حدیث پبلیکیشنز لاہور ترجمہ: بسم اللّٰه الرحمن الرحيم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ، اَمَّا بَعْدُ ! انسانی زندگی میں پیدائش اور موت دونوں ہی بڑی اہمیت کے حامل واقعات ہیں۔ پیدائش کے مقابلے میں موت کے اثرات کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ موت سے پہلے ہی بیماری کی حالت میں شرکیہ رسومات اور بدعات کا ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو موت کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔ غور فرمائیے ! انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو سارے گھر میں عجیب سی نفسیاتی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ تیمار داری کرنے والوں کا احساس ناکامی ، تقدیر کے سامنے انسان کی بے بسی ، اپنے بال بچوں سے ہمیشہ ہمیشہ جدائی کا المناک تصور ، موت کا خوف اور گھبراہٹ، موت کے تمام ترآثار و قرائن کے باوجودنہ تو لواحقین اپنے بیمار کو اس دنیا سے رخصت کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی مریض اس دنیا کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ امید و بیم کی اس کشمکش میں لواحقین اور مریض ہر وہ جتن کر گزرنے پر تیار ہوتے ہیں جو اس وقت کوئی حکیم یا جوگی ، پیر یا سادھو، عالم یا جاہل بتائے۔ موت کے اس جان گسل مرحلے میں شیطان انسان کو شرک و بدعت کے تمام راستے (شرکیہ دم جھاڑ، تعویذ گنڈے ، ٹونے ، ٹوٹکے، مزاروں سے خاک شفا حاصل کرنا، مزاروں پر دھاگے باندھنا ، فوت شدہ بزرگوں کے ناموں کی نذریں ، نیازیں دینا اور منتیں ماننا اور چڑھاوے چڑھانا وغیرہ) دکھا دیتا ہے ، جنہیں اپنے ضعیف ایمان اور کمزور عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت بآسانی اختیار کر لیتی ہے۔ موت کے بعد تعزیت کا مرحلہ آتاہے ، مرنے والے کی جدائی کا صدمہ اور رنج انسان کے جذبات کو بے قابو کردیتا ہے، انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے آزمائش کے اس موقع پر بھی شیطان انسان کے دین و ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے اور لواحقین کو مسنون طریقوں سے ہٹا کر خلاف سنت کاموں (رونے پیٹنے ، نوحہ و ماتم کرنے ، کپڑے پھاڑنے ، بال نوچنے ، سینہ کوبی کرنے ، چہرے پر ہاتھ مارنے ، سیاہ لباس پہننے وغیرہ) پر لگا دیتا ہے ۔ تعزیت کے لئے مسلسل کئی کئی ہفتے خصوصی اجتماعات (متام یا پھوڑی ڈالنا) کا اہتمام کرنا بھی اسی قسم کی جاہلانہ رسومات سے ہے۔