کتاب: جنازے کے مسائل - صفحہ 34
جَہَنَّمَ یَتَرَدّٰی فِیْہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا اَبَدًا وَمَنْ تَحَسّٰی سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہٗ، فَسُمُّہٗ فِیْ یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا اَبَدًا وَ مَنْ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہٗ فِیْ یَدِہٖ یُجَأْبِہَا فِیْ بَطْنِہٖ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا اَبَدًا)) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر (خودکشی کی)ہلاک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ اپنے آپ کو اسی طرح پہاڑ سے گراتا رہے گا۔ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ اس کی یہی حالت رہے گی۔ جس نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کیا (خودکشی کی) جہنم میں وہی زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے کھاتا رہے گا اور جہنم میں وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا، جس نے اپنے آپ کو کسی ہتھیار سے ہلاک کیا(خودکشی کی) وہی ہتھیار جہنم میں اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا ، جہنم میں وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 60 جس شخص کے پاس کوئی قابل وصیت چیز ہو اسے وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھنی چاہئے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم (( مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَہٗ شَیْئٌ یُوْصِیْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ وَ وَصِیَّۃٌ مَکْتُوْبَۃٌ عِنْدَہٗ)) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ[2] حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی قابل وصیت چیز ہے تو اسے لکھے بغیر دو راتیں بھی نہیں گزارنی چاہئیں ۔‘‘ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 61 موت کے و قت آدمی کو اپنے سارے مال کا ایک تہائی سے زیادہ صدقہ کرنے کی وصیت نہیں کرنی چاہئے۔ عَنْ عِمْرَانِ بْنِ حُصَیْنٍ رضي اللّٰه عنه اَنَّ رَجُلاً أَعْتَقَ سِتَّۃً مَمْلُوْکِیْنَ لَہٗ عِنْدَ مَوْتِہٖ لَمْ یَکُنْ لَہٗ مَالٌ غَیْرُہُمْ فَدَعَا بِہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فَجَزَّأَہُمْ اَثْلاَ ثًا ثُمَّ أَقْرَعَ بَیْنَہُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَیْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَۃً وَ قَالَ لَہٗ قَوْلاً شَدِیْدًا۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ[3] حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے (سارے) چھ غلام آزاد کردیئے اس کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے ان میں قرعہ ڈالا ، دو غلام آزاد کردیئے اور چار غلام باقی رکھے اور
[1] مختصر صحیح بخاری ، للزبیدی ، رقم الحدیث 1982 [2] مختصر صحیح بخاری ، للزیبدی ، رقم الحدیث 1194 [3] نیل الاوطار ، کتاب الوصایا ، باب فی ان تبرعات المریض من الثلث