کتاب: جہنم کا بیان - صفحہ 49
قرآن مجید میں ارشاد فرمادی ہیں۔ قرآن مجید کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جس پر کسی نہ کسی صورت میں جنت یا جہنم کا تذکرہ موجود نہ ہو۔ قرآن مجید کی 114سورتوں میں سے ایک کثیر تعداد ایسی سورتوں کی ہے جو صرف حشر نشر،حساب کتاب اور جنت و جہنم کے مضامین پر مشتمل ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ان کی مزید وضاحت اور تفسیر فرمادی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں جنت اور جہنم کے موضوع پر لکھی گئی کتب میں ترغیب یا ترہیب کے لئے من گھڑت قصے کہانیاں [1]بزرگان دین کے خواب،اولیاء کرام کے مراقبے اور مکاشفے نیز ضعیف اور موضوع روایات بڑے اہتمام سے بیان کی گئی ہیں ہمارے نزدیک یہ ساری چیزیں شریعت اسلامیہ میں اضافہ ہیں جو سراسر باطل اور گمراہ کن ہیں اس طرز عمل میں اللہ اور اس کے رسول کی واضح طور پر نافرمانی اور مخالفت پائی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾ ’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو!اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (سورہ حجرات،آیت نمبر1) دین ِاسلام کی بنیاد دو بڑی واضح اور روشن چیزوں پر ہے ۔اللہ کی کتاب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت،ہمارا عقیدہ اور ایمان ان دو چیزوں سے آگے بڑھنے کی ہمیں اجازت نہیں دیتا نہ ہی ہم اپنے اندر اتنی ہمت پاتے ہیں کہ بزرگان دین کے خوابوں،اکابرین کے مراقبوں اور اولیاء کرام کے مکاشفوں یا پھر پیروں، فقیروں کے من گھڑت قصے کہانیوں کو لوگوں کے سامنے اللہ کا دین بنا کر پیش کریں اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں﴿اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ﴾ ’’ میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں میں شامل ہوجاؤں۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خود یہ تاکید فرمائی ہے کہ گمراہی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی کتاب اور
[1] صفر 1420ھ میں مدینہ منورہ کے قبرستان’ ’بقیع الغرقد‘‘میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی سعودی عرب میں بہت تشہیر کی گئی جو بعد میں پاکستان کے اخبارات میں بھی طبع ہوا۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک تارک نماز کا جنازہ جب تدفین کے لئے لایا گیا تو ایک بہت بڑا اژدھا اس کی میت کے گرد آکر لپٹ گیا۔ اشتہار میں نماز کی ترہیب والی احادیث بھی دی گئی تھیں۔ بعض اہل علم نے جب اس واقعہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا محض لوگوں کو ترک ِنماز کے گناہ سے ڈرانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ واقعہ کی تردید جدہ کے اردو روزنامہ’ ’اردو نیوز‘‘10ستمبر 1999ء 30)جمادی الاولیٰ 1420ھ)میں بھی چھپ چکی ہے۔