کتاب: جہنم کا بیان - صفحہ 13
نہیں کرے گی بلکہ انہیں مسلسل عذاب اور عقاب میں مبتلا رکھے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿ لاَ تُبْقِیْ وَ لاَ تَذَرُ﴾’’نہ جان لے گی نہ جان چھوڑے گی۔‘‘( سورہ مدثر ،آیت نمبر 28)دوسری جگہ ارشاد مبارک ہے ﴿لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لاَ یَحْیٰی﴾ ’’اس آگ میں کافر نہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔‘‘( سورہ اعلیٰ،آیت نمبر4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں ایک انتہائی بد صورت اور مکروہ شکل کا آدمی دکھایا گیا جو مسلسل آگ جلا رہا تھا اور اس کے گرد دوڑ دوڑ کر اسے بھڑکا رہا تھا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جبریل علیہ السلام سے پوچھا ’’یہ کون ہے؟‘‘ جناب جبریل علیہ السلام نے بتایا ((اِنَّہٗ مَالِکٌ خَازِنُ جَھَنَّم)(’’اس کا نام مالک ہے اور یہ جہنم کا داروغہ ہے۔‘‘ (بخاری)گویا داروغہ جہنم آج بھی جہنم کی آگ بھڑکا رہاہے اور قیامت تک مسلسل بھڑکاتا رہے گا ۔ جہنمیوں کے جہنم میں چلے جانے کے بعد بھی جہنم کی آگ کو بھڑکانے کا یہ عمل مسلسل جاری رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰھُمْ سَعِیْرًا،﴾’’جہنم کی آگ جیسے ہی دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکادیں گے ۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ،آیت نمبر 97)
جہنم کی آگ کتنی گرم ہوگی اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا تو مشکل ہے ،لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کی روشنی میں کہ جہنم کی آگ دنیا کی آ گ سے 69درجے زیادہ گرم ہے،سادہ سا اندازہ یوں لگایا جاسکتاہے کہ دنیا کی آگ کا اگر کم از کم درجہ حرارت 2000ڈگری سنٹی گریڈ شمار کیا جائے [1]تو جہنم کی آگ کا درجہ حرارت ایک لاکھ 38ہزار ڈگری سنٹی گریڈ ہوگا ۔
اس شدید گرم آگ سے جہنمیوں کے لباس بنائے جائیں گے،اسی آگ سے ان کے بستر تیار کئے جائیں گے،اسی آگ سے ان کے لئے چھتریاں اور قناتیں بنائی جائیں گی اور اسی آگ سے ان کے لئے فرش بنائے جائیں گے ۔ عذاب الیم کی ایسی بدترین جگہ پر اس انسان کی زندگی کیسی ہوگی جو اپنی ہتھیلی پر چھوٹا سا آبلہ بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
انسان کی قوت برداشت کا عالم تو یہ ہے کہ جون جولائی کے موسم میں دوپہر بارہ بجے کی گرمی اور لو برداشت کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی کمزور،بیمار اور بوڑھے لوگوں کی اموات تک واقع ہونے لگتی
[1] یاد رہے کہ آگ کے درجہ حرارت کا انحصار اس ایندھن پر ہوتا ہے جو اسے جلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے بعض صورتوں میں یہ درجہ حرارت 2000سنٹی گریڈ سے کہیں زیادہ ہوجاتا ہے،شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہنم کے ایندھن کا ذکر بھی کیا ہے کہ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ہوں گے۔( سورہ بقرہ ،آیت نمبر 24)ممکن ہے انسانوں کو ایندھن اس لئے کہا گیا ہو کہ وہ بھی اس آگ میں جل کر ختم نہیں ہوں گے بلکہ پتھروں کی طرح ان کا وجود بھی باقی رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب!