کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 9
خطابت کے ذیعے اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔قلم کار حضرات اس کے بھیانک نتائج کو صفحۂ قرطاس پر لاتے رہتے ہیں۔اپنے یہاں سماجی کارکنان بھی کبھی کبھار اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی سیاستدان بھی اپنی کرسی کی خاطر اس زہریلی رسم کو ختم کرنے کیلئے آواز اُٹھاتے نظر آتے ہیں جو خوش آئند ہے۔مگر افسوس اور شرم سے ہمارسر اس وقت جھک جاتا ہے جب جہیز کے خلاف زبان اور قلم چلانے والے،مظاہرے اور مشورے دینے والے خود اپنی یا پھر اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی بیاہ کے موقع پر اس کی ساری قباحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسکے عدمِ جواز کو نسیاً منسیا کردیتے ہیں۔قرآنِ مجید کے الفاظ میں کہ{یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللّٰہِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ} (الصف:۲،۳)’’اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے،یہ چیز اللہ کے یہاں بڑی سخت ہے ۔یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے۔‘‘ ذرا غور کریں۔زمین میں برپا فتنہ وفساد کو ختم کرنے والے ہی اگر زمین پر فساد پھیلانے لگیں تو پھر اصلاح کون کریگا؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہیز جوڑے کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے لیکن اسلام کے ایک بہت ہی اہم پہلو’’قانونِ میراث‘‘ کے حکم پر عمل کرنے پر زور نہیں دیا جاتا ۔اس موضوع پر نہ گفتگو ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی کتاب لکھی جاتی ہے۔حالانکہ قرآن وحدیث میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ورثہ میں صرف لڑکوں ہی کا حق نہیں بلکہ لڑکیاں بھی اس کی حقدار ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لِّلرِّجَالِ نَصیِْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً} (سورۂ نسآء:۷)