کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 5
دے دی تھی جبکہ 1987 ء میں تیرہ سو انیس(1319)عورتوں کی موت واقع ہوئی اور 1988 ء میں یہ تعداد بڑھ کر سترہ سو ستاسی (1787)کو پہنچ گئی۔‘‘[1]
مسلمانوں نے قرآن کو چھوڑکراسلام کی روشن تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا اور یہود وہنود اور نصاریٰ کے رسم ورواج اپنائے تو ذلت وخواری سے دوچار ہوئے۔ ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
تم رسوا ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
جسے اللہ نے اپنی نشانی قراردیا اور ذریعۂ تسکین بنایا(الروم:۲۱) آج ہندوانہ رسم کی غلامی میں آکر مسلمان اسے آگ میں جھونک رہا ہے۔دخترکشی پر مجبور کرنے والا یہ جہیز وجوڑابیٹیوں کو حصّۂ وراثت سے محروم کرنے کیلئے ہندؤوں بطورِ چال اختیار کیاگیا تھا کہ شادی پر اسے کچھ دے دلا کر اسکا منہ بند کردیا جائے تاکہ وراثت سے اپنا حصّہ نہ مانگ سکے۔نیک عورتوں کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی سب سے قیمتی دولت قرار دیا ہے۔[2]لیکن انسانوں نے اسے اپنے طمع ولالچ کی بھینٹ چڑھادیا ہے۔یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ ہندومسلم سکھ عیسائی سب کا مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے اور رسمِ جہیز کو مٹانے کیلئے ضروری ہے سب لوگ مل کر راست اقدام کریں جسکے لیے چند تجاویز یہ ہیں:
1 قانونِ وراثت کو نافذ کیا جائے، عورت ماں ہے یا بہن،بیٹی ہے یا بیوی ،ہر کسی کو اسکا جائز شرعی حق دیا جائے جسکی تفصیل قرآن ،سورۃ النسآء آیت:۱۱،۱۲ اور اسی سورت کی آخری آیت ۱۷۶ کے علاوہ کتبِ حدیث میں آگئی ہے۔لیکن لوگ ان قوانینِ وراثت سے کسی نہ کسی طرح پہلوتہی کرتے ہیں۔کسی کو حد سے زیادہ نواز دیتے ہیں اور کسی کی حق تلفی کردیتے ہیں اور بہنوں بیٹیوں کی حق تلفی تو ایک دستورِ زمانہ بن چکی ہے جسکے نتیجہ میں انہیں کن کن آلام ومصائب سے دوچار ہوناپڑتا ہے حتّٰی کہ دخترکشی اور دلہن سوزی بھی انہیں نتائج میں سے ایک ہے۔
[1] پندرہ روزہ جریدہ ترجمان،دہلی جلد۲۷ شمارہ ۶ بابت صفر وربیع الاوّل ۱۴۲۸ھ،مارچ ۲۰۰۷ء۔
[2] مختصر صحیح مسلم:۷۹۷،نسائی،مسنداحمد-صحیح الجامع:۳۴۱۳۔