کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 4
’’عورت کی برکت یہ ہے کہ وہ منگنی و پیغامِ نکاح اور حقِ مہر میں کم خرچ اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی ہو۔‘‘
جبکہ سنن کبریٰ نسائی وبیہقی،مستدرک حاکم اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک معروف روایت ان لفظوں میں ہے:
((اَعْظَمُ النِّسَآئِ بَرَکَۃً اَیْسَرُھُنَّ مَئُوْنَۃً)) [1]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
غرض کم خرچ شادی ہی زیادہ بابرکت ثابت ہوتی ہے اوراس میں شک نہیں کہ عورت اللہ تعالیٰ کا حسین تخلیقی شاہکار، انسان کیلئے قدرت کا بیش بہا عطیہ اور انس وفاء کا پیکر ہے اور جس زن کا وجود اس کائنات کی تصویر میں رنگینیاں لاتا ہے انسان نے اسے ہی اپنے ظلم وستم کیلئے تختۂ مشق بنائے رکھا ہے۔ایام ِجاہلیت میں جسے یہ اطلاع ملتی کہ اسکے یہاں بچی پیدا ہوگئی ہے اسکا منہ ہی کالاپڑجاتا تھا اور وہ اس سوچ میں ڈوب جاتا کہ وہ اس بیٹی کو قبول کرلے یا مٹی میں دبادے۔(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)۔عرب لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے جیسا کہ سورۃ التکویر کی آیت ۸،۹ اور اسکی تفسیر میں تفصیل مذکور ہے۔
آج زمانہ ترقی کرگیا ہے اب لوگ بچی کو اس جہانِ زنگ وبو میں قدم ہی نہیں رکھنے دیتے۔جیسے ہی حمل کا ظہور ہوا میڈیکل چیک اپ کروانے پر یقین ہوگیا کہ بچی ہے فوراًاسقاطِ حمل کروالیتے ہیں اور جو ان ستمگروں سے بچ جاتی ہیں ان میں سے کچھ جہیز نہ دے سکنے والے غریب والدین کے گھر وں میں ہی مرجھا جاتی ہیں۔برصغیر خصوصاً ہندوستان میں تو ایسے واقعات کی خبر عام ہے حتّٰی کہ دہلی سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ جریدہ’’ ترجمان‘‘ میں انڈین وزیرخزانہ(پی چندیا سوان)کے ایک بیان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ:
’’جہیز کے جھگڑوں کی وجہ سے 1986ء میں نوسوننانوے(999)عورتوں نے اپنی جان
[1] للتفصیل:الارواء للعلّامۃ الالبانی۶؍۳۴۸-۳۵۰،حدیث:۱۹۲۸