کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 34
’’جس نے شادی کی اس نے آدھا دین مکمل کیااور باقی آدھے میں اسے اللہ سے ڈرنا چاہیئے۔‘‘ یعنی شادی کرنا آدھا دین ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: ’’اہل ایمان کی تین قسمیں ہیں: 1 وہ جو ایمان لائے اور اپنے جان ومال سے جہاد کرے۔ 2 وہ جس سے لوگوں کے مال وجان امن میں اور محفوظ رہیں۔ 3 وہ جس کو اپنی حرص و آرزو پوری کرنے کا بذریعہ حرام موقع ہاتھ آئے اور وہ اپنے عزم واستقلال کی مضبوطی سے اللہ کی خوشنودی کی خاطر اس موقع سے ہاتھ اٹھالے۔‘‘ کیا آج ہمارے مسلمانوں کے آپس میں مال وجان محفوظ ہیں ؟ محفوظ ہونا تو کجا اگر کسی کے یہاں شادی کے لئے لڑکی موجود ہے تو اس کے مال ودولت پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے لوگ کمر کس لیتے ہیں۔ اس لڑکی کے والدین کے مال وجائداد کا حساب لگانا شروع کردیتے ہیں انکم ٹیکس والا معاف کردے گا مگر یہ کٹنم خور ہر گز معاف نہیں کریں گے۔ اور لڑکی کا باپ بھی ٹیکس چوری کرکے، زکوٰۃ چوری کرکے،حج نہ کرکے اور رشوت لیکر اپنے لاڈلے دامادکی جھولی بھرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ ظلم اور حرص سے بچو۔ارشادِ الٰہی ہے: { لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ} (سورۃ البقرۃ:۲۷۹) ’’نہ تم کسی پر ظلم وزیادتی کرو اور نہ ہی کوئی اور تم پر ظلم وزیادتی کرے۔‘‘ یہاں لڑکا اپنی شادی میں لڑکی والوں پر ظلم وزیادتی کرتا ہے اور لڑکی والے خود کو اس کے ظلم کے حوالے کردیتے ہیں۔ اس طرح دونوں گروہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: