کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 21
مسلم،ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ میں ہے جس میں کہاگیا ہے کہ رشتہ دینداری کی بنیاد پر کرو نہ کہ حسب نسب یامال وجمال کی وجہ سے چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِأَرْبَعٍ:لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ)) [1] ’’لڑکی سے شادی چار وجوہ کی بناء پر کی جاتی ہے:اسکے مال،اسکے حسب ونسب،اسکے حسن وجمال اور اسکے دین کیلئے،اللہ تیرا بھلا کرے، دیندار لڑکی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلو۔‘‘ اس حدیث کے خلاف لڑکی والے کا پیسے دیکر اپنی بیٹی کیلئے شوہر خرید نا کتنی شرمناک اور حیاسوز حرکت ہے جس پر شرمانا تو کجااپنی شان ہی سمجھتے ہیں۔ معاشرے کی خرابی کی تمام ترذمہ داری انہیں جہیز خوروں پر پڑے گی یہی معاشرہ کے ناسور ہیں جب مہر کی ادائیگی کا مسئلہ آتا ہے تو سنت کی سادگی کا خیال آجاتا ہے۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کے طور پر لوہے کی انگوٹھی یا قرآن سے کچھ حصہ سکھا دینے سے نکاح کروادیا تھا‘ یہ کم سے کم حدبتا نے کے لئے ایک نمونہ ہے۔ وہیں مہر زیادہ سے زیادہ اداکرنے کیلئے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ اسی لئے جہاں اسلام میں سادگی سے مہر اداکیا گیا ہے وہیں بڑی سے بڑی مقدار میں بھی مہراداکیا گیا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ خیر القرون میں چالیس ہزار(یااس سے بھی زیادہ )درہم ودینا رکا بھی مہر اداکیا گیا۔ لڑکی والوں کو مہر کے معاملہ میں ہوشیا رہنا چاہئے۔مہرمؤخر پیسے کی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ پیسوں کی قیمت گھٹ جاتی ہے۔ اگر وہ آج پانچ ہزار کا مہر طے کرکے دس سال کے بعد اداکرے تو اس وقت یہی پانچ ہزار کی رقم پانچ سو کی قیمت ہوگی لہٰذا مہر مؤخر طے کرتے وقت بنیاد سونے کو بنانا چاہیئے جب بھی وہ دے تو اتنی مقدار سونادے یا اس مقدار
[1] صحیح الجامع:۳۰۰۳۔