کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 20
داماد کو برتنے کے لئے مرحمت فرمایا تھااور یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مہرکے پیسوں سے خرید کر دیا تھا۔ نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا۔
مگر یہ واقعہ جہیزخوروں کے لئے ایک گل (دانہ)ہے جس کو ڈالکر بڑی بڑی مچھلیاں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کبھی رشتہ کی بات ہوتی ہے تو لڑکے والے پہلی شرط جو لگاتے ہیں وہ جہیز کے بارے میں ہوتی ہے۔ پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ جہیز میں کیادیں گے؟ اور لڑکے کو جوڑے کی رقم کتنی ملے گی؟ اگر یہ بات پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتی تو مزید پیش قدمی نہیں ہوتی۔ اگر جوڑے کی رقم تسلی بخش ملے تو شادی پکی ہوجاتی ہے، یہ تو گویا ایک رشوت ہے جس کے ذریعے والدین اپنی لڑکی کے لئے سہاگ کا انتظام کرتے ہیں جبکہ رشوت کا دینے والا اور لینے والا دونوں ملعون ہیں۔[1]جبکہ بہ مصداقِ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جوڑے کی رقم دینے والا بھی گنہگار ہے چاہے وہ خوشی سے ہی کیوں نہ دے کیونکہ رشوت خوشی کے ساتھ دینے سے جائز نہیں ہوجاتی اور یہ مذموم حرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِمبارک کے بھی خلاف ہے جوکہ بخاری،
[1] نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ((لَعَنَ اللّٰہُ الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ فِی الْحُکْمِ))(ترمذی،مسنداحمد،مستدرک حاکم۔صحیح الجامع الصغیر:۴۹۶۹)
’’فیصلہ کرنے میں رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
جبکہ دوسری حدیث میں ہے:
((لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ))(ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ،مسنداحمد،صحیح الجامع:۴۹۹۰)
’’رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
تاہم ایک حدیث معروف تو بہت ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔اس میں ہے: ((اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ فِی النَّارِ))
’’رشوت لینے اور دینے والے جہنمی ہیں ‘‘۔یہ معروف روایت معجم طبرانی صغیر میں ہے لیکن اسے محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔(دیکھیئے:ضعیف الجامع الصغیر:۳۱۴۶)