کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 18
طرح چاہے اس مال کو خرچ کرے۔ مگر اکثر شادیوں میں ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین اس پر قبضہ کرلیتے ہیں جو سراسرحق تلفی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النور میں فرماتا ہے:
{وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحاً حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ} (سورۂ نور:۳۳)
’’جو لوگ (مرد) نکاح کی طاقت نہیں رکھتے وہ ضبط ِ نفس کریں یہاں تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ!مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہٗ اَغَضُّ لِلْبَصَرِوَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہٗ لَہٗ وَجَائٌ)) [1]
’’اے نوجوانو!تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے، یہ نگاہ نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا باعث ہے اورجوشادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو چاہیئے کہ روزہ رکھے تاکہ اس کی شہوت کمزور پڑجائے۔‘‘
جو شخص مہر اداکرنیکی طاقت نہ رکھتا ہو اس کو چاہیئے کے اللہ کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرے۔ مگر آج ان شرعی احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ کیونکہ نکاح کرنے سے ہی اس مفلس آدمی کو جہیز ملتا ہے۔ سسرال کے جوڑے کی رقم لیکر وہ غنی ہوجاتا ہے۔ اب اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازے جانے تک ضبط اور تحمل کرنے کی اور روزہ سے اپنی شہوت کم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسکے نزدیک گویا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم مہمل ٹھہرا۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)
[1] صحیح بخاری۔