کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 14
پیش لفظ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلَٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَعَلٰی اَتْبَاعِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔اَمَّابَعْدُ:
قرآن مجید میں حکیم وعلیم کا فرمان ہے:
{ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ} (سورۃ النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس آیت میں مرد اور عورت کے مقامِ فطرت کو واضح کررہا ہے جو خود خالق ہے دونوں صنفوں کا۔ اس نے مرد کو عورت پرحَکم ونگرانِ کاربنایا اور اس کی ایک وجہ یہ بتارہا ہے کہ اس نے مرد کو عورت پر فضیلت اور بڑائی سے نوازا ہے اور دوسری وجہ یہ بتارہا ہے کہ مردوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ یہ کہہ کر باری تعالیٰ یہ حکم دے رہا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر اپنا مال خرچ کرنا ہے اور عورتیں ایسی ذمہ داری یابوجھ سے آزادرہیں کیونکہ حاکم کو ہی اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ عورتوں کی خوراک و پوشاک ا وردیگر جملہ ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے۔
مگر عصرِ حاضر میں شادی بیاہ کے جہیز جو ڑے کے رواج نے اللہ تعالیٰ کے اس قانونِ فطرت کو الٹا کر دیا ہے۔ عورت کو اپنی شادی کے لئے مرد خیرید نا پڑتا ہے۔ خرید نے پر ہی بس نہیں بلکہ اگر وہ مردبے روز گار ہوتو اس کو کام اور نوکری پر بھی لگا ناپڑتا ہے۔ اس طرح عورت مرد کی کفیلہ بن جاتی ہے اور مرد کا خرچ اٹھاتی ہے۔ یہ سراسر ظلم اور مذکورہ آیت کی صریح خلاف